Jamil Nazar

جمیل نظر

جمیل نظر کی غزل

    عزم فانی بھی لا زوال بھی ہے

    عزم فانی بھی لا زوال بھی ہے آدمی ہے تو یہ کمال بھی ہے آرزو میں حلاوتیں بھی ہیں آرزو مرکز خیال بھی ہے واردات جنوں کا ذکر نہ چھیڑ کچھ خوشی بھی ہے کچھ ملال بھی ہے آئینہ ہے جواب وحشت کا آئینہ پیکر سوال بھی ہے ہے جواں فکر دور حاضر کی شدت ہوش سے نڈھال بھی ہے خواہش زیست آج دنیا ...

    مزید پڑھیے

    وہ مری دنیا کا مالک تھا مگر میرا نہ تھا

    وہ مری دنیا کا مالک تھا مگر میرا نہ تھا میں نے اس انداز پر پہلے کبھی سوچا نہ تھا ایک مدت تک رہا خوش فہمیوں میں مبتلا آئینے کے روبرو جب تک مرا چہرہ نہ تھا تہمتوں کو ایک ایسے اجنبی کی تھی تلاش جو کبھی گھر سے نکل کر راہ میں ٹھہرا نہ تھا ہو چکی تھی شہرتیں رسوائیوں سے ہمکنار بھول ...

    مزید پڑھیے

    جدائی روح کو جب اشتعال دیتی ہے

    جدائی روح کو جب اشتعال دیتی ہے خنک ہوا بھی بدن کو ابال دیتی ہے اگر ہو وقت کا احساس زندگانی میں ہر ایک سانس ہمیں اک سوال دیتی ہے اسی کے دم سے تو یادوں کے زخم تازہ ہیں یہی صبا ہے جو ہر گھر کا حال دیتی ہے فضا میں رنگ تری خوشبوؤں کے پھیلا کے دکھے دلوں کو صبا بھی ملال دیتی ہے رقابتوں ...

    مزید پڑھیے

    فراق و ہجر کے لمحے جو ٹل گئے ہوتے

    فراق و ہجر کے لمحے جو ٹل گئے ہوتے ہمارے ذہن کے خاکے بدل گئے ہوتے وہ مصلحت کا تقاضا اگر سمجھ جاتا تمام شہر کے لہجے بدل گئے ہوتے اگر شریک سفر وہ بھی ہو گیا ہوتا تمازتوں کے یہ سورج بھی ڈھل گئے ہوتے قدم اٹھائے ہیں کچھ سوچ کر محبت میں سنبھلنا ہوتا ہمیں تو سنبھل گئے ہوتے وفا پسند ...

    مزید پڑھیے

    اہل جنوں کا جب بھی چمن میں گزر ہوا

    اہل جنوں کا جب بھی چمن میں گزر ہوا ارباب فکر کے لئے اک درد سر ہوا عنواں ہر آرزو کا بہ شرط نظر ہوا افسانہ ختم سب کا ترے نام پر ہوا ناکامیوں سے حوصلے کچھ اور بڑھ گئے سو در کھلے ہیں بند اگر ایک در ہوا میرا مذاق تیرگیٔ شب ہے دوستو وہ کوئی اور ہوگا جو وقف سحر ہوا اپنوں ہی کی حریف نظر ...

    مزید پڑھیے

    حوصلے اپنے رہنما تو ہوئے

    حوصلے اپنے رہنما تو ہوئے حادثے غم کا آسرا تو ہوئے بے وفا ہی سہی زمانے میں ہم کسی فن کی انتہا تو ہوئے وادئ غم کے ہم کھنڈر ہی سہی آنے والوں کا راستہ تو ہوئے کچھ تو موجیں اٹھی سمندر سے بے سبب ہی سہی خفا تو ہوئے ان کو اپنا ہی غم سہی لیکن وہ کسی غم میں مبتلا تو ہوئے خود کو بیگانہ کر ...

    مزید پڑھیے

    مجبور التفات بھی ہوں گے جفا کے بعد

    مجبور التفات بھی ہوں گے جفا کے بعد آتا ہے انقلاب اگر انتہا کے بعد سب کو نئے نئے سے اجالوں کی فکر ہے تحریک احتیاط چلی ہے ہوا کے بعد ماضی کا تذکرہ ہے نہ اب فکر حال ہے بیدار ہو گیا ہوں میں کس کی صدا کے بعد پاتے ہیں لا شعور میں ہم قلب ماہیت احساس کچھ لطیف ہے اتنا سزا کے بعد دشوار اس ...

    مزید پڑھیے

    وہ مری دنیا کا مالک تھا مگر میرا نہ تھا

    وہ مری دنیا کا مالک تھا مگر میرا نہ تھا میں نے اس انداز پر پہلے کبھی سوچا نہ تھا ایک مدت تک رہا خوش فہمیوں میں مبتلا آئینے کے روبرو جب تک مرا چہرہ نہ تھا تہمتوں کو ایک ایسے اجنبی کی ہے تلاش جو کبھی گھر سے نکل کر راہ میں ٹھہرا نہ تھا ہو چکی تھیں شہرتیں رسوائیوں سے ہمکنار بھول ...

    مزید پڑھیے

    کچھ نہ کچھ سوچنے پہ ہوں مجبور

    کچھ نہ کچھ سوچنے پہ ہوں مجبور لوگ سمجھیں اگر مذاق شعور ایک بے نام سی طلب کے لئے سر بہ سجدہ ہوں نفرتوں کے حضور دھڑکنیں دل کی چاہتی ہیں جمود بولنے پر نہ کیجئے مجبور ایک امید کے سہارے پر گھپ اندھیروں کو کر رہا ہوں عبور راہ منزل کا پھر تعین کیا ہر مسافر کا ہے الگ منشور میں نے ...

    مزید پڑھیے

    اب رہا کیا جو لٹانا رہ گیا

    اب رہا کیا جو لٹانا رہ گیا زندگی کا ایک طعنہ رہ گیا اک تعلق جن سے تھا دل کو کبھی اب وہ رشتہ غائبانہ رہ گیا تھا جو افسانے میں افسانے کی جان اک وہی جملہ بڑھانا رہ گیا زندگی کی لذتیں رخصت ہوئیں اک تخیل شاعرانہ رہ گیا سوچتا ہوں اور یاد آتا نہیں جانے کیا ان کو بتانا رہ گیا الجھنیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2