فراق و ہجر کے لمحے جو ٹل گئے ہوتے

فراق و ہجر کے لمحے جو ٹل گئے ہوتے
ہمارے ذہن کے خاکے بدل گئے ہوتے


وہ مصلحت کا تقاضا اگر سمجھ جاتا
تمام شہر کے لہجے بدل گئے ہوتے


اگر شریک سفر وہ بھی ہو گیا ہوتا
تمازتوں کے یہ سورج بھی ڈھل گئے ہوتے


قدم اٹھائے ہیں کچھ سوچ کر محبت میں
سنبھلنا ہوتا ہمیں تو سنبھل گئے ہوتے


وفا پسند اگر وہ بھی ہو گیا ہوتا
ہمارے راستے کتنے بدل گئے ہوتے


جو تھوڑی دیر نہ آتا خیال تنہائی
تمہارے شہر کی حد سے نکل گئے ہوتے


نظرؔ کو مہلت نظارگی اگر ملتی
نگاہ شوق کے ارماں نکل گئے ہوتے