کچھ نہ کچھ سوچنے پہ ہوں مجبور
کچھ نہ کچھ سوچنے پہ ہوں مجبور
لوگ سمجھیں اگر مذاق شعور
ایک بے نام سی طلب کے لئے
سر بہ سجدہ ہوں نفرتوں کے حضور
دھڑکنیں دل کی چاہتی ہیں جمود
بولنے پر نہ کیجئے مجبور
ایک امید کے سہارے پر
گھپ اندھیروں کو کر رہا ہوں عبور
راہ منزل کا پھر تعین کیا
ہر مسافر کا ہے الگ منشور
میں نے اکثر تراش کر دیکھا
حسن دیتا ہے پتھروں کو غرور
اس کی خوشبو کے دائرے نہ خطوط
لوگ الفاظ میں رہے محصور
سانحے کا خیال آتے ہی
آدمی مڑ کے دیکھتا ہے ضرور
کس فضا میں کٹی یہ عمر نظرؔ
سانس لینے کا آ سکا نہ شعور