اہل جنوں کا جب بھی چمن میں گزر ہوا
اہل جنوں کا جب بھی چمن میں گزر ہوا
ارباب فکر کے لئے اک درد سر ہوا
عنواں ہر آرزو کا بہ شرط نظر ہوا
افسانہ ختم سب کا ترے نام پر ہوا
ناکامیوں سے حوصلے کچھ اور بڑھ گئے
سو در کھلے ہیں بند اگر ایک در ہوا
میرا مذاق تیرگیٔ شب ہے دوستو
وہ کوئی اور ہوگا جو وقف سحر ہوا
اپنوں ہی کی حریف نظر کھا گئی اسے
پیدا جہاں چمن میں کوئی دیدہ ور ہوا
تیرے ہی التفات کا منت گزار ہے
جو حادثہ بھی وقت سے کچھ پیشتر ہوا
ناپختگیٔ شوق کے عالم میں اے نظرؔ
جو مرکز خیال بنا منتشر ہوا