جدائی روح کو جب اشتعال دیتی ہے

جدائی روح کو جب اشتعال دیتی ہے
خنک ہوا بھی بدن کو ابال دیتی ہے


اگر ہو وقت کا احساس زندگانی میں
ہر ایک سانس ہمیں اک سوال دیتی ہے


اسی کے دم سے تو یادوں کے زخم تازہ ہیں
یہی صبا ہے جو ہر گھر کا حال دیتی ہے


فضا میں رنگ تری خوشبوؤں کے پھیلا کے
دکھے دلوں کو صبا بھی ملال دیتی ہے


رقابتوں کے سبب سے جو دھند چھا جائے
تری نگاہ وہ منظر کھنگال دیتی ہے


کدال پہلی چلا کر روایتوں پہ نظرؔ
کیا وہ کام کہ دنیا مثال دیتی ہے