Jamil Nazar

جمیل نظر

جمیل نظر کی غزل

    محبت کو جو ظاہر کر رہی ہے

    محبت کو جو ظاہر کر رہی ہے مرے چہرے پہ وہ تحریر بھی ہے ہوئیں صدیاں نظر کے زلزلوں کو ابھی تک شہر کی حالت وہی ہے اجاگر جب بھی اس کے غم ہوئے ہیں نئے رخ سے غزل میں نے کہی ہے اگر گہرا نہیں ہے زخم احساس ہمارے سوچنے میں کچھ کمی ہے ہوائے ظلم کے جھونکے ادھر بھی مرے دل میں بھی شوق آگہی ...

    مزید پڑھیے

    بستیاں ویران ہوں گی کثرت تعمیر سے

    بستیاں ویران ہوں گی کثرت تعمیر سے یہ کھنڈر ابھرے ہیں دنیا میں اسی تدبیر سے کوہ بھی کرتے ہیں ظاہر شدت جذبات کو زلزلے آتے ہیں اکثر گرمیٔ تحریر سے میری قسمت کے ستارے آستیں میں ہیں مری اب قدم نکلیں گے باہر حلقۂ تقدیر سے اب کے سوچا تھا کریں کچھ ہم بھی زخموں کا علاج کر گئے موسم ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے صحرا سے کچھ اداس بہت

    دل ہے صحرا سے کچھ اداس بہت گھر کو ویراں کروں تو گھاس بہت رعب پڑ جائے اس پہ لہجہ کا مدعا کم ہو التماس بہت میری تنہائیوں کی دنیا میں لوگ رہتے ہیں آس پاس بہت ہے عجب حال غم کے سورج کا روشنی کم ہے انعکاس بہت مطمئن دل ہو کیا حقیقت سے ہے مری سوچ میں قیاس بہت لوگ مرتے ہیں اک خوشی کے ...

    مزید پڑھیے

    رہ خلوص میں بہتر ہے سر جھکا رکھنا

    رہ خلوص میں بہتر ہے سر جھکا رکھنا وہ سر کشیدہ اگر ہے تو سر سوا رکھنا یہی وہ سوچ ہے جس کی تلاش تھی مجھ کو یہ بات اپنے خیالوں سے اب جدا رکھنا نہ قرب ذات ہی حاصل نہ زخم رسوائی عجیب لگتا ہے اب خود سے رابطہ رکھنا تمام شہر کو آتش کدہ بنانا ہے دلوں کی آگ سلیقے سے جا بجا رکھنا بڑا عجیب ...

    مزید پڑھیے

    اپنے بارے میں جب بھی سوچا ہے

    اپنے بارے میں جب بھی سوچا ہے اس کا چہرہ نظر میں ابھرا ہے تجربوں نے یہی بتایا ہے آدمی شہرتوں کا بھوکا ہے دیکھیے تو ہے کارواں ورنہ ہر مسافر سفر میں تنہا ہے اس کے بارے میں سوچنے والو دیکھ لو اب یہ حال اپنا ہے کون بندش لگائے خوشبو کی عشق فطرت کا اک تقاضا ہے یاد آئی ہے جانے کس کس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2