Jameel Mazhari

جمیلؔ مظہری

ممتاز قبل از جدید شاعر۔ اپنے غیر روایتی خیالات کے لئے معروف

One of the outstanding pre-modern poets known for his radical views.

جمیلؔ مظہری کی غزل

    میرا جذبہ کہ جو خود فہم ہے خود کام نہیں

    میرا جذبہ کہ جو خود فہم ہے خود کام نہیں پختہ مغزان جنوں کی ہوس خام نہیں صاف کہتا ہوں کنایہ نہیں الہام نہیں کیا ہو آرام سے دنیا تجھے آرام نہیں تھک گئے کیا مہ و انجم کے شکاری تیرے ہاتھ آج کیوں ایک ستارہ بھی تہہ دام نہیں تیرگی وقت کی سمٹی ہوئی اک خال میں ہے ذہن اک حال میں ہے صبح ...

    مزید پڑھیے

    جب پاؤں ملا تھا تو رستے بھی نظر آتے

    جب پاؤں ملا تھا تو رستے بھی نظر آتے تم تک نہ سہی لیکن تا حد نظر جاتے تم آنکھ نہیں رکھتے اور دیکھتے ہو سب کچھ ہم آنکھ بھی رکھتے ہیں اور دیکھ نہیں پاتے ہر راہ تو منزل تک لے جاتی نہیں سب کو کچھ دیر ادھر چلتے کچھ دیر ادھر جاتے پردہ وہ اٹھایا تو پردہ ہی نظر آیا جب کچھ نہ نظر آیا تو ...

    مزید پڑھیے

    بخشش ہے تیری ہاتھ میں دنیا لیے ہوئے

    بخشش ہے تیری ہاتھ میں دنیا لیے ہوئے میں چپ کھڑا ہوں دیدۂ بینا لیے ہوئے صحرا کو کیا خبر کہ ہے ہر ذرۂ حقیر مٹھی میں اپنی قسمت صحرا لیے ہوئے اس شام سے ڈرو جو ستاروں کی چھاؤں میں آتی ہو اک حسین اندھیرا لیے ہوئے اے وقت اک نگاہ کہ کب سے کھڑے ہیں ہم آئینۂ تصور فردا لیے ہوئے گزرا تھا ...

    مزید پڑھیے

    بلاؤ اس کو زباں داں جو مظہریؔ کا ہو

    بلاؤ اس کو زباں داں جو مظہریؔ کا ہو مگر ہے شرط کہ اکیسویں صدی کا ہو یقیں وہی ہے جو آغوش تیرگی میں ملے سواد وہم میں ہم سایہ روشنی کا ہو بتوں کو توڑ کے ایسا خدا بنانا کیا بتوں کی طرح جو ہم شکل آدمی کا ہو مرا غرور نہ کیوں ہو سرور سے خالی جب اس کے بھیس میں اک چور کم تری کا ہو بہت بجا ...

    مزید پڑھیے

    مری بندگی تجھے دے سکے گی بجائے معنی و لفظ کیا

    مری بندگی تجھے دے سکے گی بجائے معنی و لفظ کیا ہے مرے شعور کی جھولیوں میں سوائے معنی و لفظ کیا جو نظر کا بوجھ نہ سہہ سکیں وہ زباں کا بوجھ سہیں گی کیا سبک و لطیف اشارتوں پہ جفائے معنی و لفظ کیا مجھے ڈر ہے اے سخن آفریں یہ لباس ان پر گراں نہ ہو جو حقیقتیں نہ پہن سکیں وہ قبائے معنی و ...

    مزید پڑھیے

    ہر طرف پردہ دار ظلمت ہے

    ہر طرف پردہ دار ظلمت ہے اک تبسم کی پھر ضرورت ہے ٹھہری ٹھہری ہے وقت کی رفتار عالم غور میں مشیت ہے ہے گماں کیا یقین کا سایہ اور یقیں واہمے کی شدت ہے عشق بھی زندگی کی لعنت تھا عقل بھی زندگی کی لعنت ہے خود نمائی میں جو حجاب رہے تیرگی اس کی اک علامت ہے شور تحسین ناروا سے جمیلؔ یہ ...

    مزید پڑھیے

    یہاں جو بھی تھا تنہا تھا یہاں جو بھی ہے تنہا ہے

    یہاں جو بھی تھا تنہا تھا یہاں جو بھی ہے تنہا ہے یہ دنیا ہے یہ دنیا ہے اسی کا نام دنیا ہے نہ بولا ان سے جاتا ہے نہ دیکھا ان سے جاتا ہے یہاں گونگوں کی بستی ہے یہاں اندھوں کا پہرا ہے وہ منزل تھی تحیر کی یہ منزل ہے تفکر کی وہاں پردہ بھی جلوہ تھا یہاں جلوہ بھی پردا ہے وہ عالم تھا تعین ...

    مزید پڑھیے

    پردہ حائل جو تھا کہاں ہے اب

    پردہ حائل جو تھا کہاں ہے اب تیرا جلوہ ہی درمیاں ہے اب شمع کہتی رہی جسے شب بھر خاتمے پر وہ داستاں ہے اب میری نظروں کی اک تھکن کے سوا اور کیا چیز آسماں ہے اب صبر کا میرے امتحاں تو ہوا تیری رحمت کا امتحاں ہے اب تو بھی میری طرح نہ ہو ناکام فکر یہ رب دو جہاں ہے اب کامیابی کے گر ...

    مزید پڑھیے

    دریا کا چڑھاؤ دیکھتا ہوں

    دریا کا چڑھاؤ دیکھتا ہوں تنکوں کا بہاؤ دیکھتا ہوں تم دیکھو بلندی آسماں کی میں اس کا جھکاؤ دیکھتا ہوں کل پیش نظر تھی تیغ ابرو اب سینے کا گھاؤ دیکھتا ہوں وہ آئیں نہ آئیں کون جانے آئی ہوئی ناؤ دیکھتا ہوں سنتا ہوں کراہ لکڑیوں کی جلتے ہیں الاؤ دیکھتا ہوں آسان نہیں ہے دل کی ...

    مزید پڑھیے

    جمیلؔ کو گمرہی مبارک کہ اب تو سامان بھی وہی ہے

    جمیلؔ کو گمرہی مبارک کہ اب تو سامان بھی وہی ہے جو دل کی وحشت کا تھا تقاضہ خرد کا میلان بھی وہی ہے خودی محبت کے فلسفے میں ہے اس کے جذبوں کی موت لیکن کچھ اور دل میں اتر کے دیکھو تو عشق کی جان بھی وہی ہے بنی تھی ہمدرد عشق کی جب تو عقل کو یہ بھی دیکھنا تھا کہ جس کو وو فائدہ سمجھتی ہے اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4