جمیلؔ کو گمرہی مبارک کہ اب تو سامان بھی وہی ہے

جمیلؔ کو گمرہی مبارک کہ اب تو سامان بھی وہی ہے
جو دل کی وحشت کا تھا تقاضہ خرد کا میلان بھی وہی ہے


خودی محبت کے فلسفے میں ہے اس کے جذبوں کی موت لیکن
کچھ اور دل میں اتر کے دیکھو تو عشق کی جان بھی وہی ہے


بنی تھی ہمدرد عشق کی جب تو عقل کو یہ بھی دیکھنا تھا
کہ جس کو وو فائدہ سمجھتی ہے اس کا نقصان بھی وہی ہے


ہماری میزان آگہی میں یقین کیا ہے گماں کی شدت
جو شک کی آغوش میں پلا ہو اصولاً ایمان بھی وہی ہے


جمیلؔ کیسی خدا پرستی وہی گھٹی خواہشوں کی مستی
ڈبوئی جس نے ہماری کشتی تمہارا طوفان بھی وہی ہے