میرا جذبہ کہ جو خود فہم ہے خود کام نہیں
میرا جذبہ کہ جو خود فہم ہے خود کام نہیں
پختہ مغزان جنوں کی ہوس خام نہیں
صاف کہتا ہوں کنایہ نہیں الہام نہیں
کیا ہو آرام سے دنیا تجھے آرام نہیں
تھک گئے کیا مہ و انجم کے شکاری تیرے ہاتھ
آج کیوں ایک ستارہ بھی تہہ دام نہیں
تیرگی وقت کی سمٹی ہوئی اک خال میں ہے
ذہن اک حال میں ہے صبح نہیں شام نہیں
دن جوانی کا ڈھلا یعنی ہوئی شام مگر
تم وہ سورج ہو کہ جس پر اثر شام نہیں
کیا کرے قیس کہ ہے دھوپ ہی صحرا کی پسند
سایۂ گیسوئے لیلیٰ میں بھی آرام نہیں
مظہریؔ معتکف جرۂ انکار تو ہے
مظہریؔ بے خبر کلفت ایام نہیں