پردہ حائل جو تھا کہاں ہے اب

پردہ حائل جو تھا کہاں ہے اب
تیرا جلوہ ہی درمیاں ہے اب


شمع کہتی رہی جسے شب بھر
خاتمے پر وہ داستاں ہے اب


میری نظروں کی اک تھکن کے سوا
اور کیا چیز آسماں ہے اب


صبر کا میرے امتحاں تو ہوا
تیری رحمت کا امتحاں ہے اب


تو بھی میری طرح نہ ہو ناکام
فکر یہ رب دو جہاں ہے اب


کامیابی کے گر بتانے لگی
عشق پر عقل مہرباں ہے اب


مظہریؔ پیش کارواں تھا کبھی
مظہریؔ گرد کارواں ہے اب