Jamal Owaisi

جمال اویسی

ممتاز مابعد جدید شاعر۔ اپنی نظموں کے لئے معروف

One of the outstanding post-modern poets.

جمال اویسی کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا

    میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا سنو اے دوستو اک دن میں سب کچھ کھو رہا ہوں گا یہ دنیا کار ہائے احمقانہ ہی سے چلتی ہے کسی منصب پہ میں بھی بیٹھ کر کچھ ہو رہا ہوں گا ترے شکوے سے وقت نزع مجھ کو شرم آئے گی کہ اپنے داغ دل پھر آنسوؤں سے دھو رہا ہوں گا تری چشم تحیر دیکھ لیتی کس ...

    مزید پڑھیے

    دوڑتا رہتا ہوں نامعلوم سمتوں کی طرف

    دوڑتا رہتا ہوں نامعلوم سمتوں کی طرف دیکھتا ہرگز نہیں پیروں کے چھالوں کی طرف بستیوں کے لوگ سچ سن کر بہت برہم ہوئے اب مرا اگلا نشانہ خانقاہوں کی طرف اب مرے دامن سے الجھی ہیں کٹیلی جھاڑیاں کیوں نکل آیا تھا گھر سے خار زاروں کی طرف سخت تنہائی کی وحشت سے مجھے مرنا نہیں گھر سے گھبرا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تیرے لیے خاک بہت چھانی ہے

    زندگی تیرے لیے خاک بہت چھانی ہے تو بھی میرے لیے اک وجہ پریشانی ہے میں نے بھی دیکھ لیے نقش و نگار دنیا دیدنی اتنی نہیں جتنی ثنا خوانی ہے غرق ہوتا ہوا دریاؤں میں صحرائے وجود بے زمیں کرتا ہوا چاروں طرف پانی ہے میں نے مانگا تھا بہت اس نے دیا ہے کچھ کم فقط اکرام میں خواہش کی فراوانی ...

    مزید پڑھیے

    پتھر سے مکالمہ ہے جاری

    پتھر سے مکالمہ ہے جاری دونوں ہی طرف ہے ہوشیاری وحشت سے میں بھاگتا رہا ہوں پھر مجھ پہ جنوں ہوا ہے طاری درویش کو رکھ کے خاک پا میں کرتا ہے زمانہ شہریاری پتھر سے مجھے نہ چوٹ پہنچی اک گل نے دیا ہے زخم کاری شہری وطن عزیز کا ہوں لیکن ہے شعار اشک باری مذہب ہے مرا طریق ہندی دیرینہ ...

    مزید پڑھیے

    مسجود میرا راہنما کیوں نہیں ہوا

    مسجود میرا راہنما کیوں نہیں ہوا تیرا خدا بھی میرا خدا کیوں نہیں ہوا مجھ کو ضمیر ٹوکتا رہتا ہے ہر گھڑی لوگوں کا دل بھی شیشہ نما کیوں نہیں ہوا میں بے دماغ دوست بناتا رہا سدا مجھ پر اثر خشونتوں کا کیوں نہیں ہوا ظاہر پرست لوگ مرے آس پاس ہیں میں بھی انہیں کے جیسا بھلا کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 رباعی (Rubaai)

    اجتہاد

    بھرتا نہیں پیٹ جس قدر بھرتا ہوں ہر روز حصول رزق میں مرتا ہوں جب مجھ سے یہ کائنات ہے با معنی جینے کی جو یورش ہے عبث کرتا ہوں

    مزید پڑھیے

    دعا

    اک سیل رکا ہوا ہے اندر میرے اک شور نواح جاں سے ٹکرایا ہے تو بول تو لب کھول دوں میں آخر شب سننے کی اگر تاب ہے مولا میرے

    مزید پڑھیے

    مجذوب

    آئینے میں عکس ڈھونڈھتا رہتا ہے اندھا گھڑی ٹٹولتا رہتا ہے اشیاء پہ یقیں نہ آئے تو دل دیکھے دل پر بھی خاک ڈالتا رہتا ہے

    مزید پڑھیے