Jamal Owaisi

جمال اویسی

ممتاز مابعد جدید شاعر۔ اپنی نظموں کے لئے معروف

One of the outstanding post-modern poets.

جمال اویسی کی غزل

    میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا

    میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا سنو اے دوستو اک دن میں سب کچھ کھو رہا ہوں گا یہ دنیا کار ہائے احمقانہ ہی سے چلتی ہے کسی منصب پہ میں بھی بیٹھ کر کچھ ہو رہا ہوں گا ترے شکوے سے وقت نزع مجھ کو شرم آئے گی کہ اپنے داغ دل پھر آنسوؤں سے دھو رہا ہوں گا تری چشم تحیر دیکھ لیتی کس ...

    مزید پڑھیے

    دوڑتا رہتا ہوں نامعلوم سمتوں کی طرف

    دوڑتا رہتا ہوں نامعلوم سمتوں کی طرف دیکھتا ہرگز نہیں پیروں کے چھالوں کی طرف بستیوں کے لوگ سچ سن کر بہت برہم ہوئے اب مرا اگلا نشانہ خانقاہوں کی طرف اب مرے دامن سے الجھی ہیں کٹیلی جھاڑیاں کیوں نکل آیا تھا گھر سے خار زاروں کی طرف سخت تنہائی کی وحشت سے مجھے مرنا نہیں گھر سے گھبرا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تیرے لیے خاک بہت چھانی ہے

    زندگی تیرے لیے خاک بہت چھانی ہے تو بھی میرے لیے اک وجہ پریشانی ہے میں نے بھی دیکھ لیے نقش و نگار دنیا دیدنی اتنی نہیں جتنی ثنا خوانی ہے غرق ہوتا ہوا دریاؤں میں صحرائے وجود بے زمیں کرتا ہوا چاروں طرف پانی ہے میں نے مانگا تھا بہت اس نے دیا ہے کچھ کم فقط اکرام میں خواہش کی فراوانی ...

    مزید پڑھیے

    پتھر سے مکالمہ ہے جاری

    پتھر سے مکالمہ ہے جاری دونوں ہی طرف ہے ہوشیاری وحشت سے میں بھاگتا رہا ہوں پھر مجھ پہ جنوں ہوا ہے طاری درویش کو رکھ کے خاک پا میں کرتا ہے زمانہ شہریاری پتھر سے مجھے نہ چوٹ پہنچی اک گل نے دیا ہے زخم کاری شہری وطن عزیز کا ہوں لیکن ہے شعار اشک باری مذہب ہے مرا طریق ہندی دیرینہ ...

    مزید پڑھیے

    مسجود میرا راہنما کیوں نہیں ہوا

    مسجود میرا راہنما کیوں نہیں ہوا تیرا خدا بھی میرا خدا کیوں نہیں ہوا مجھ کو ضمیر ٹوکتا رہتا ہے ہر گھڑی لوگوں کا دل بھی شیشہ نما کیوں نہیں ہوا میں بے دماغ دوست بناتا رہا سدا مجھ پر اثر خشونتوں کا کیوں نہیں ہوا ظاہر پرست لوگ مرے آس پاس ہیں میں بھی انہیں کے جیسا بھلا کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    غبار کس کا ہے استعارہ یہ گرد کس واسطے اڑی ہے

    غبار کس کا ہے استعارہ یہ گرد کس واسطے اڑی ہے یہاں وہاں ایک ایک ذرہ میں سرکشی کس نے ڈال دی ہے بکھر گئی ہے پرانی ترتیب سارے عنصر الگ ہوئے ہیں ہر ایک اپنے میں اک مکمل وجودیت کا علامتی ہے جہاں پہ ذرات کی سلگ تھی وہاں پہ ادراک تھم گیا تھا بصیرت اپنی بھی اس کے آگے ہزار چاہا نہ جا سکی ...

    مزید پڑھیے

    قریب آتے ہوئے اور دور جاتے ہوئے

    قریب آتے ہوئے اور دور جاتے ہوئے یہ کون لوگ ہیں بے وجہ مسکراتے ہوئے یہ لمحے ساز ازل سے چھلک کے گر گئے تھے تبھی سے یوں ہی مسلسل ہیں گنگناتے ہوئے اک ایسی سمت جدھر کب سے ہو کا عالم ہے میں جا رہا ہوں اکیلا قدم بڑھاتے ہوئے میں کب سے دیکھ رہا ہوں عجیب سی حرکت مرا لکھا ہوا کچھ لوگ ہیں ...

    مزید پڑھیے

    جب کبھی شور جہاں ہوتا ہے

    جب کبھی شور جہاں ہوتا ہے میرے ہونے کا گماں ہوتا ہے جبر ہے مجھ پہ نظام فطرت مجھ پہ ہر لمحہ گراں ہوتا ہے صبح ہوتی نہیں پہلے جیسی شب گرفتار سماں ہوتا ہے دھند میں کھوتے ہیں منظر سارے پیچ در پیچ دھواں ہوتا ہے شام تا صبح چراغاں کر کے دشت میں نوحۂ جاں ہوتا ہے وقت پھیلاتا ہے دامن ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی ملی مجھ کو ضرورت سے زیادہ

    تنہائی ملی مجھ کو ضرورت سے زیادہ پڑھتی ہیں کتابیں مجھے وحشت سے زیادہ جو مانگ رہے ہو وہ مرے بس میں نہیں ہے درخواست تمہاری ہے ضرورت سے زیادہ ممکن ہے مری سانس اکھڑ جائے کسی پل یہ راستہ ہے میری مسافت سے زیادہ آئے ہیں پڑوسی مرے گھر لے کے شکایت باتوں میں وہ تلخی ہے کہ نفرت سے ...

    مزید پڑھیے

    ہر نفس اک نئی زنجیر مجھے ملتی ہے

    ہر نفس اک نئی زنجیر مجھے ملتی ہے جینا پڑتا ہے مجھے ہیر مجھے ملتی ہے بھاگتا رہتا ہوں پرچھائیوں کی یورش سے ہر جگہ اپنی ہی تصویر مجھے ملتی ہے بے نوائی میں مرے دل کو سکوں ہے کتنا چین سے جینے کی جاگیر مجھے ملتی ہے میں نے دیکھا تھا کبھی سایوں کے ٹکراؤ کا خواب آج اس خواب کی تعبیر مجھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2