Jafar Sahni

جعفر ساہنی

جعفر ساہنی کی غزل

    بیٹھا تھا تن کو ڈھانک کے جو گرم شال سے

    بیٹھا تھا تن کو ڈھانک کے جو گرم شال سے مشکل میں پڑ گیا وہ ستاروں کی چال سے خاموشیوں کی راہ پہ ہو کر کے گامزن رکھنا کبھی نہ سوچ کا رشتہ ملال سے امید ایسی ان سے متانت کی تھی نہیں بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے دم خم تو کچھ نہیں تھا حقیقت کے نام پر گھبرا گیا جہان ہماری مجال ...

    مزید پڑھیے

    زرد پتا جو ڈال سے نکلا

    زرد پتا جو ڈال سے نکلا حسرتوں کے وبال سے نکلا اپنا وہم و گماں قوی کر کے وقت آخر زوال سے نکلا زندگی کا طویل ہنگامہ لال سورج کے تھال سے نکلا لوگ چپ تھے مگر وہ افسانہ وقت کے قیل و قال سے نکلا محو حیرت ہے آج تک منزل راستہ کیسی چال سے نکلا وہ زماں اور مکاں سے آگے تھا مطمئن ہر خیال ...

    مزید پڑھیے

    زوال عمر کے پردے میں ہے حجاب کہاں

    زوال عمر کے پردے میں ہے حجاب کہاں وفور شوق سے لبریز اب گلاب کہاں کرن کرن سے فسانہ حسین لکھتا تھا چلا گیا وہ فسوں کارآفتاب کہاں نمود صبح کو دیتا صدا چلا آئے ہماری رات میں باقی ہے ایسا خواب کہاں ہر اک قدم پہ خرد کے نشان ملتے ہیں تجھے چھپا کے میں رکھوں دل خراب کہاں سنہرے وقت میں ...

    مزید پڑھیے

    انداز کسی کا ہے صدا اور کسی کی

    انداز کسی کا ہے صدا اور کسی کی ہے چوٹ کوئی اور دوا اور کسی کی تبدیل شدہ شخص نظر آنے لگا وہ تیور میں سجا کر کے ادا اور کسی کی اک شوخ سے سیراب نظر ہونے لگی ہے قابض ہے مگر دل پہ حیا اور کسی کی رہتا تھا گریزاں جو سدا میری وفا سے ڈھونڈے ہے وہی آج وفا اور کسی کی خاموش فضا تھامے رہا وہ ...

    مزید پڑھیے

    پیچھا ہی نہیں چھوڑتی گھر بار کی خوشبو

    پیچھا ہی نہیں چھوڑتی گھر بار کی خوشبو رستے سے عیاں ہے در و دیوار کی خوشبو کب کیسے کہاں سے بنی پر پیچ گلی میں بے چین کیے رہتی ہے اسرار کی خوشبو میں اپنے تصور میں ہوں خوش حال برادر قدموں میں پڑی ہے مرے دربار کی خوشبو تم اجنبی قدموں سے نکل جاؤ مسافر پانا ہے کسی اور کو گلزار کی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی نازک کبھی بے حد کڑا ہے

    کبھی نازک کبھی بے حد کڑا ہے وہ تغلقؔ سامنے بن کر کھڑا ہے خراشیں پڑ گئی ہیں آسماں پر زمیں سے آج شاید وہ لڑا ہے وہ اب بیکار شے ہے اپنے گھر کی کبھی اندر کبھی باہر پڑا ہے زمانہ ساتھ تھا بادل میں اس کے چمکتی دھوپ میں تنہا کھڑا ہے خزاں کا رنگ ہے کیسا سہانا نہ پتہ پیڑ سے کوئی جھڑا ...

    مزید پڑھیے

    میں یہاں شور کس لئے کرتا

    میں یہاں شور کس لئے کرتا دھر لیا جاؤں گا یہ امکاں تھا دیکھیے رخ ہوا کا کب ٹھہرے آ گیا لے کے وہ دیا جلتا پیڑ پودے تو خوف کھاتے ہیں گھاس پر اس کا بس نہیں چلتا اڑ گیا آخرش میں کمرے سے کب تلک جیتے جی یہاں مرتا میرے اندر جو ڈھونڈھتا تھا مجھے اس سے کٹ کر میں مل چکا کب کا خواب دے کر ...

    مزید پڑھیے

    شر کی باتوں میں تمازت کا نشاں ہو کہ نہ ہو

    شر کی باتوں میں تمازت کا نشاں ہو کہ نہ ہو آگ لگتی ہے تو سینے میں دھواں ہو کہ نہ ہو شوق کو اپنے ذرا تیز قدم ہی رکھنا تھامنے ہاتھ کبھی باد رواں ہو کہ نہ ہو سیل کے غیظ سے لرزاں ہے تصور کا بدن بہتے پانی کے تکلم سے گماں ہو کہ نہ ہو دل کے خانے میں کشش خوب ملی ہے روشن اس کی محفل کا سماں ...

    مزید پڑھیے

    انوکھا کچھ کہاں ایسا ہوا ہے

    انوکھا کچھ کہاں ایسا ہوا ہے تماشا سب مرا دیکھا ہوا ہے خوشی کو ہم نشیں اپنا بنا کر نشان غم بہت گہرا ہوا ہے ہنسی کیوں بے تحاشہ آئی اس کو زمانہ کس لیے سنکا ہوا ہے نئی شاداب قربت کی فضا میں بہت مخمور سا لہجہ ہوا ہے سراپا دیکھ کر دل کش کسی کا ہر اک منظر وہاں ٹھہرا ہوا ہے کبھی منسوب ...

    مزید پڑھیے

    خاموش نگاہوں سے وہ یلغار کا ہونا

    خاموش نگاہوں سے وہ یلغار کا ہونا ملتا ہے نفی میں کسی اقرار کا ہونا محفوظ مرے خواب کو بتلاتا نہیں ہے اک عکس تردد میں نگہ دار کا ہونا حیرت میں نہیں ڈالتا اب شہر گماں کو ہر روز لہو رنگ میں اخبار کا ہونا آثار تعلق کو جلا دیتا ہے اکثر گمنام کسی درد میں غم خوار کا ہونا رستے کے تکلف ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3