زرد پتا جو ڈال سے نکلا

زرد پتا جو ڈال سے نکلا
حسرتوں کے وبال سے نکلا


اپنا وہم و گماں قوی کر کے
وقت آخر زوال سے نکلا


زندگی کا طویل ہنگامہ
لال سورج کے تھال سے نکلا


لوگ چپ تھے مگر وہ افسانہ
وقت کے قیل و قال سے نکلا


محو حیرت ہے آج تک منزل
راستہ کیسی چال سے نکلا


وہ زماں اور مکاں سے آگے تھا
مطمئن ہر خیال سے نکلا


کیسے طے ہو بچا ہوا رستہ
شیر بیٹھا ہے جال سے نکلا


لو بغل میں سمیٹ کر رکھ لو
ہاتھ ٹھنڈا ہے شال سے نکلا


کیسا مبہم جواب اے جعفرؔ
میرے واضح سوال سے نکلا