Jafar Sahni

جعفر ساہنی

جعفر ساہنی کی غزل

    آرزو آباد ہے بکھرے کھنڈر کے آس پاس

    آرزو آباد ہے بکھرے کھنڈر کے آس پاس درد کی دہلیز پر گرد سفر کے آس پاس خار کی ہر نوک کو مجروح کر دینے کے بعد لوٹ جانا ہے مجھے برگ و ثمر کے آس پاس دیدنی ہیں چاہتوں کی نرم و نازک لغزشیں گردش ایام میں شام و سحر کے آس پاس دور اک خاموش بستی کی گلی میں دیکھنا ہے تمنا مطمئن مخدوش گھر کے آس ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں کی عنایتوں سے ہوا ہے دل یہ خراب بابا

    محبتوں کی عنایتوں سے ہوا ہے دل یہ خراب بابا خدا پرستی کا طور دیکھو بنا ہے کیسا عذاب بابا جھلس رہا ہے زمیں کا سینہ کرن کرن سے دعا کرو تم تراوتوں کی دو بوند لے کر یہاں بھی برسے سحاب بابا ہے فاقہ مستی کا سلسلہ جب تو آئے سختی قدم میں کیسے یہ ناتوانی کی لرزشیں ہیں نہ پی ہے میں نے شراب ...

    مزید پڑھیے

    تماشا اک انوکھا سا دکھانا

    تماشا اک انوکھا سا دکھانا تردد میں کھلا چہرہ دکھانا اسے میں رام کر لوں گا یقیناً بھری محفل میں بس تنہا دکھانا ہمیشہ جوش میں رہنا نہیں ہے کبھی جذبہ بہت دھیما دکھانا اگر کہنا ہوا مشکل زباں سے اشاروں میں نئی دنیا دکھانا دلاسے کے لیے وہ آ گئے ہیں کوئی زخمی کوئی مردہ دکھانا اسے ...

    مزید پڑھیے

    لمحوں کے اشارے میں جفا دیکھ کے چپ ہے

    لمحوں کے اشارے میں جفا دیکھ کے چپ ہے کس واسطے ہر غم کو خدا دیکھ کے چپ ہے بادل کی ریاست میں سسکتا سا اجالا شب تاب کی معصوم ضیا دیکھ کے چپ ہے دہشت کے حوالے سے پریشان کبھی تھا ہر شاخ میں اب پھول کھلا دیکھ کے چپ ہے سرسبز لبادے میں سجائے تھا جو سپنا چہرے کا ابھی رنگ اڑا دیکھ کے چپ ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی شب بھر ٹہلتی چھت پہ تنہا رہ گئی

    چاندنی شب بھر ٹہلتی چھت پہ تنہا رہ گئی پیار کی ہر یاد رنگیں بے سہارا ہو گئی جوش دریا کا بنا تھا قہر کشتی کے لیے بے بسی میں ناتواں پتوار رسوا ہو گئی داستان زندگی کی جب کرن خاموش تھی تب ہوا بھی سن کے چپ سارا فسانہ رہ گئی پھول پتے جب چمن سے در بدر ہونے لگے پر سکوں سرسبز دنیا بن کے ...

    مزید پڑھیے

    دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید

    دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید آج بھی ہے وہ ہم سفر شاید ہاتھ پتھر سے ہو گئے خالی پیڑ پر ہے نہیں ثمر شاید ڈھونڈھتا تھا وجود اپنا وہ تھا ادھر اب گیا ادھر شاید سرخیاں اگ رہی ہیں دامن پر ہو گیا ہاتھ خوں سے تر شاید پھول الفت کے کھل رہے ہوں جہاں ہوگا ایسا بھی اک نگر شاید بیکلی بڑھ گئی ...

    مزید پڑھیے

    پوشیدہ تھا جو سب پہ عیاں کیوں نہیں ہوا

    پوشیدہ تھا جو سب پہ عیاں کیوں نہیں ہوا حق میں ہمارے نیک گماں کیوں نہیں ہوا سرسبز ہو کے دل نشیں بن جاتی یہ زمیں ایسا گداز سیل رواں کیوں نہیں ہوا نغموں کے درمیان فسانہ تھا پر کشش دل کش فضا میں رقص جواں کیوں نہیں ہوا کل تک گلی ہماری درخشاں نہ ہو سکی اب تو بتاؤ ایسا میاں کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر طرف موج بلا کی سی روانی دیکھی

    ہر طرف موج بلا کی سی روانی دیکھی اشک کی گود میں مجبور کہانی دیکھی ہم بدلتے ہی رہے عشق میں موسم کے مگر گھر کی چوکھٹ پہ سدا گرد پرانی دیکھی درد کے صحن کو دشمن نہیں جانا ہم نے اس میں دل کش نئی دنیا کی نشانی دیکھی دشت وحشت کی نمائش کا حوالہ دے کر شہر دل دار کے تیور کی جوانی ...

    مزید پڑھیے

    ایک معصوم تمنا کی فضا تھی کل تک

    ایک معصوم تمنا کی فضا تھی کل تک زندگی ایسی کہاں ہوش ربا تھی کل تک غیظ آندھی کا بنا اب ہے مقدر میرا دل کے آنگن میں مہکتی سی صبا تھی کل تک نغمگی آ گئی کس طور سے اس کے لب پر جس کی آواز ترنم سے جدا تھی کل تک آج خاموش بہت بزم بہاراں کیوں ہے گنگناتے سے لبادے میں ہوا تھی کل تک حسن کی شوخ ...

    مزید پڑھیے

    پر شور تلاطم کا مداوا کوئی آہٹ

    پر شور تلاطم کا مداوا کوئی آہٹ سنگین فضا میں تھی دلاسا کوئی آہٹ بے درد ہواؤں نے ہراساں تو کیا تھا تھی ساتھ مگر ان کے شناسا کوئی آہٹ جب کالی گھٹا قہر کا سامان بنی تھی دے کر گئی بجلی کا اجالا کوئی آہٹ گوشے میں تصور جہاں بیمار پڑا تھا کرتی تھی محبت سے اشارہ کوئی آہٹ خاموش خیالوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3