آرزو آباد ہے بکھرے کھنڈر کے آس پاس
آرزو آباد ہے بکھرے کھنڈر کے آس پاس درد کی دہلیز پر گرد سفر کے آس پاس خار کی ہر نوک کو مجروح کر دینے کے بعد لوٹ جانا ہے مجھے برگ و ثمر کے آس پاس دیدنی ہیں چاہتوں کی نرم و نازک لغزشیں گردش ایام میں شام و سحر کے آس پاس دور اک خاموش بستی کی گلی میں دیکھنا ہے تمنا مطمئن مخدوش گھر کے آس ...