پیچھا ہی نہیں چھوڑتی گھر بار کی خوشبو

پیچھا ہی نہیں چھوڑتی گھر بار کی خوشبو
رستے سے عیاں ہے در و دیوار کی خوشبو


کب کیسے کہاں سے بنی پر پیچ گلی میں
بے چین کیے رہتی ہے اسرار کی خوشبو


میں اپنے تصور میں ہوں خوش حال برادر
قدموں میں پڑی ہے مرے دربار کی خوشبو


تم اجنبی قدموں سے نکل جاؤ مسافر
پانا ہے کسی اور کو گلزار کی خوشبو


اشکوں کے جھروکے میں بھی در آئی ہے اکثر
حیران تبسم میں بسی یار کی خوشبو


اک گل پہ قناعت ہے کہاں بہتی ہوا کو
ہر وقت لیے پھرتی ہے دو چار کی خوشبو


برسوں جو رہی دفن کسی زخم جگر میں
پائل سے اگی آج وہ جھنکار کی خوشبو


آواز پہ تکیہ نہ لگانا کبھی جعفرؔ
خاموش صدا دیتی ہے اس پار کی خوشبو