Jafar Sahni

جعفر ساہنی

جعفر ساہنی کی نظم

    نہ اک پتے کو رو بابا

    شفق جب پھول کر رنگ حنا تھی اور ہوا کے لب سلے تھے ایک بوڑھا پیڑ برگد کا کھڑا گنگا کنارے دل گرفتہ خود سے محو گفتگو تھا ''وہ مری اک شاخ کا پتہ مرے ہی جسم کا حصہ گرا گر کر ستارا ہو گیا پانی کا پیارا ہو گیا مجھ سے کنارہ ہو گیا'' وہیں سرگوشیوں میں اک پتنگا گنگنایا کان میں اس کے ''نراشا تم ...

    مزید پڑھیے

    سرشت آدم

    بہت ہی تیز بارش ہے ہوا بھی کچھ اس طوفانی مسلسل آسماں کئی گھنٹے سے یکساں برستا جا رہا ہے اور مری کھڑکی پہ بیٹھا ایک کوا پنکھ سے ٹپکاتا پانی آسماں کی نقل کرتا جا رہا ہے اور اس سے کچھ پرے چھپر پہ کوئی آدمی زادہ چھپائے سر کو پولی تھین سے اپنا چھپاتا سر وہ چھپر کا بھی پولی تھین ...

    مزید پڑھیے

    دکان

    نیم کے سائے میں ایک کھردرے فٹ پاتھ پر لہکتے سورج سے پرے شکستہ چوبی گاڑی کی زمیں پہ ٹیڑھے میڑھے ہاتھ پاؤں میں الجھتی حیات غمزدہ آنکھوں کے درد لب پہ اک خاموش کرب منہ سے کچھ بہتے لعاب اپنی جانب کھینچتے ہیں بولتے سکوں کے ڈھیر

    مزید پڑھیے

    بانجھ سی لگنے لگی ہے

    واپسی پر رات کے کالے سیہ جھولے میں لیٹے اس نے سوچا تھا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح ہنستی گنگناتی زندگی سے انس کی دہلیز پر جا کر ملے گا پوچھے گا اس سے کرن سورج کی کیسے چومتی ہے پھول کو اور جگمگا دیتی ہے مٹی دھول کو ٹھنڈی ہوا کیا ہے گھٹا کیا ہے پرندے چہچہاتے کس ادا سے ہیں مگر کچھ بھی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    مچا کہرام کیوں ہے

    مچا کہرام کیوں ہے گھر بدلنے پر ابھی بھی ہلکے کالے شیشے والی آنکھ پر عینک لگا کر حلقۂ یاراں میں وہ اکثر چہل قدمی کو آتا ہے سناتا ہے غزل اپنی کبھی تاروں کی جھرمٹ میں کبھی رستے میں شبنم کے کبھی خوشبو لپیٹے جسم پر دلکش فضاؤں میں کبھی بے حد چمکتی دھوپ کے پیپل کی چھاؤں میں ذرا سا چشم ...

    مزید پڑھیے

    موت

    وہ تبسم کی سڑک پر تھامے جس کی انگلیاں محو سفر تھا کل تلک روشن محبت کی اسی پہچان کو درگور کر دینے سے پہلے غم سمیٹے نرم کاندھے پر کسی لب ریز بادل کی طرح رونے لگا تھا پھوٹ کر بے چارگی آشفتگی درماندگی سے واسطہ تھا ہر طرف اس کو مگر یہ سلسلہ کب تک کہاں تک تازہ دم رہتا معاً احساس جاگا ذہن ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر مجھ سے

    آج پھر مجھ سے مرا کمرہ مخاطب ہے دراڑیں وہ کبھی چھت کی دکھاتا ہے کبھی دیوار میں پڑتے شگافوں کو نشاں جھلسے ہوئے رنگوں کا مجھ کو مبتلا کر دیتا ہے ہیبت میں مکڑی کے سبک جالے ہوا کے دوش پر لہرانے لگتے ہیں زوال زندگی کا وہ پتہ بھی دینے لگتے ہیں زمیں کمرے کی بوسیدہ کہانی جب سناتی ...

    مزید پڑھیے

    چھوٹی سی کھڑکی

    مختصر کمرے کی ایک چھوٹی سی مغموم کھڑکی کبھی دیکھتی ہے جو باہر کی دنیا اداسی بہت بڑھ جاتی ہے اس کی مگر سامنے کے ہرے لان کے پھول چمپا چمیلی گلاب اور بیلا کی پوشاک پہنے ہوئے مسکراتے ہوئے رنگ و خوشبو کے لہجے میں اس کو سناتے ہیں معصوم لمحوں کا قصہ ہتھیلی پہ پھر انہی معصوم لمحوں ...

    مزید پڑھیے

    غارت تماشا ہو گیا

    مجھ کو وہ کتا صبا قدموں اچھلتا مخملی سبزے پہ تحفہ حسن مطلق کا بنا دلکش لگا تھا لمبے بالوں روئی کے گالوں کو پہنے جسم اس کا گیند سا لگنے لگا تھا اک گلابی نرم انگلی نرم پٹا ہلکی سی زنجیر وہ کتا بہت اچھا لگا تھا ہاں مگر وہ گیند سا کتا اچھلتا بھی اچانک ایک پتھر کے سرے پر سونگھتا کچھ رک ...

    مزید پڑھیے

    اداس ہو جاتا ہوں

    میرے غم میں شریک ہونے اور مجھے دلاسہ دینے کو کئی دنوں سے مرے عزیز و آشنا چلے آتے ہیں وہ گلو گیر آوازوں اور بھیگی پلکوں سے اپنے غم کا جب اظہار کرتے ہیں تو میں بھی چہرے پر اک مکھوٹا چڑھا لیتا ہوں ان کی دل جوئی کی خاطر لمحہ بھر کو اداس ہو جاتا ہوں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2