Jafar Sahni

جعفر ساہنی

جعفر ساہنی کے تمام مواد

26 غزل (Ghazal)

    بیٹھا تھا تن کو ڈھانک کے جو گرم شال سے

    بیٹھا تھا تن کو ڈھانک کے جو گرم شال سے مشکل میں پڑ گیا وہ ستاروں کی چال سے خاموشیوں کی راہ پہ ہو کر کے گامزن رکھنا کبھی نہ سوچ کا رشتہ ملال سے امید ایسی ان سے متانت کی تھی نہیں بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے دم خم تو کچھ نہیں تھا حقیقت کے نام پر گھبرا گیا جہان ہماری مجال ...

    مزید پڑھیے

    زرد پتا جو ڈال سے نکلا

    زرد پتا جو ڈال سے نکلا حسرتوں کے وبال سے نکلا اپنا وہم و گماں قوی کر کے وقت آخر زوال سے نکلا زندگی کا طویل ہنگامہ لال سورج کے تھال سے نکلا لوگ چپ تھے مگر وہ افسانہ وقت کے قیل و قال سے نکلا محو حیرت ہے آج تک منزل راستہ کیسی چال سے نکلا وہ زماں اور مکاں سے آگے تھا مطمئن ہر خیال ...

    مزید پڑھیے

    زوال عمر کے پردے میں ہے حجاب کہاں

    زوال عمر کے پردے میں ہے حجاب کہاں وفور شوق سے لبریز اب گلاب کہاں کرن کرن سے فسانہ حسین لکھتا تھا چلا گیا وہ فسوں کارآفتاب کہاں نمود صبح کو دیتا صدا چلا آئے ہماری رات میں باقی ہے ایسا خواب کہاں ہر اک قدم پہ خرد کے نشان ملتے ہیں تجھے چھپا کے میں رکھوں دل خراب کہاں سنہرے وقت میں ...

    مزید پڑھیے

    انداز کسی کا ہے صدا اور کسی کی

    انداز کسی کا ہے صدا اور کسی کی ہے چوٹ کوئی اور دوا اور کسی کی تبدیل شدہ شخص نظر آنے لگا وہ تیور میں سجا کر کے ادا اور کسی کی اک شوخ سے سیراب نظر ہونے لگی ہے قابض ہے مگر دل پہ حیا اور کسی کی رہتا تھا گریزاں جو سدا میری وفا سے ڈھونڈے ہے وہی آج وفا اور کسی کی خاموش فضا تھامے رہا وہ ...

    مزید پڑھیے

    پیچھا ہی نہیں چھوڑتی گھر بار کی خوشبو

    پیچھا ہی نہیں چھوڑتی گھر بار کی خوشبو رستے سے عیاں ہے در و دیوار کی خوشبو کب کیسے کہاں سے بنی پر پیچ گلی میں بے چین کیے رہتی ہے اسرار کی خوشبو میں اپنے تصور میں ہوں خوش حال برادر قدموں میں پڑی ہے مرے دربار کی خوشبو تم اجنبی قدموں سے نکل جاؤ مسافر پانا ہے کسی اور کو گلزار کی ...

    مزید پڑھیے

تمام

12 نظم (Nazm)

    نہ اک پتے کو رو بابا

    شفق جب پھول کر رنگ حنا تھی اور ہوا کے لب سلے تھے ایک بوڑھا پیڑ برگد کا کھڑا گنگا کنارے دل گرفتہ خود سے محو گفتگو تھا ''وہ مری اک شاخ کا پتہ مرے ہی جسم کا حصہ گرا گر کر ستارا ہو گیا پانی کا پیارا ہو گیا مجھ سے کنارہ ہو گیا'' وہیں سرگوشیوں میں اک پتنگا گنگنایا کان میں اس کے ''نراشا تم ...

    مزید پڑھیے

    سرشت آدم

    بہت ہی تیز بارش ہے ہوا بھی کچھ اس طوفانی مسلسل آسماں کئی گھنٹے سے یکساں برستا جا رہا ہے اور مری کھڑکی پہ بیٹھا ایک کوا پنکھ سے ٹپکاتا پانی آسماں کی نقل کرتا جا رہا ہے اور اس سے کچھ پرے چھپر پہ کوئی آدمی زادہ چھپائے سر کو پولی تھین سے اپنا چھپاتا سر وہ چھپر کا بھی پولی تھین ...

    مزید پڑھیے

    دکان

    نیم کے سائے میں ایک کھردرے فٹ پاتھ پر لہکتے سورج سے پرے شکستہ چوبی گاڑی کی زمیں پہ ٹیڑھے میڑھے ہاتھ پاؤں میں الجھتی حیات غمزدہ آنکھوں کے درد لب پہ اک خاموش کرب منہ سے کچھ بہتے لعاب اپنی جانب کھینچتے ہیں بولتے سکوں کے ڈھیر

    مزید پڑھیے

    بانجھ سی لگنے لگی ہے

    واپسی پر رات کے کالے سیہ جھولے میں لیٹے اس نے سوچا تھا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح ہنستی گنگناتی زندگی سے انس کی دہلیز پر جا کر ملے گا پوچھے گا اس سے کرن سورج کی کیسے چومتی ہے پھول کو اور جگمگا دیتی ہے مٹی دھول کو ٹھنڈی ہوا کیا ہے گھٹا کیا ہے پرندے چہچہاتے کس ادا سے ہیں مگر کچھ بھی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    مچا کہرام کیوں ہے

    مچا کہرام کیوں ہے گھر بدلنے پر ابھی بھی ہلکے کالے شیشے والی آنکھ پر عینک لگا کر حلقۂ یاراں میں وہ اکثر چہل قدمی کو آتا ہے سناتا ہے غزل اپنی کبھی تاروں کی جھرمٹ میں کبھی رستے میں شبنم کے کبھی خوشبو لپیٹے جسم پر دلکش فضاؤں میں کبھی بے حد چمکتی دھوپ کے پیپل کی چھاؤں میں ذرا سا چشم ...

    مزید پڑھیے

تمام