انداز کسی کا ہے صدا اور کسی کی
انداز کسی کا ہے صدا اور کسی کی
ہے چوٹ کوئی اور دوا اور کسی کی
تبدیل شدہ شخص نظر آنے لگا وہ
تیور میں سجا کر کے ادا اور کسی کی
اک شوخ سے سیراب نظر ہونے لگی ہے
قابض ہے مگر دل پہ حیا اور کسی کی
رہتا تھا گریزاں جو سدا میری وفا سے
ڈھونڈے ہے وہی آج وفا اور کسی کی
خاموش فضا تھامے رہا وہ مرے حق میں
میں لے کے چلا آیا دعا اور کسی کی
طوفاں میں چمن اپنے پریشاں تو بہت تھا
آسودہ نہیں پا کے صبا اور کسی کی
لکھا ہی نہیں جرم مرے نام کے آگے
ہوں پا کے بہت خوش میں سزا اور کسی کی
ہے خوب درخشاں سا نئے شہر میں آ کر
چپکا کے بدن پر وہ ضیا اور کسی کی
اے ساہنیؔ کیوں ایسا ہوا مجھ کو بتانا
روشن ہے ترے گھر میں فضا اور کسی کی