شر کی باتوں میں تمازت کا نشاں ہو کہ نہ ہو
شر کی باتوں میں تمازت کا نشاں ہو کہ نہ ہو
آگ لگتی ہے تو سینے میں دھواں ہو کہ نہ ہو
شوق کو اپنے ذرا تیز قدم ہی رکھنا
تھامنے ہاتھ کبھی باد رواں ہو کہ نہ ہو
سیل کے غیظ سے لرزاں ہے تصور کا بدن
بہتے پانی کے تکلم سے گماں ہو کہ نہ ہو
دل کے خانے میں کشش خوب ملی ہے روشن
اس کی محفل کا سماں رشک جناں ہو کہ نہ ہو
درد مندی کی فضا ہم تو کریں گے قائم
صحن دل دار لیے عکس فغاں ہو کہ نہ ہو
اپنی پلکوں پہ چلو آج نمی کچھ بھر لیں
شبنمی حسن میں تر پھر سے جہاں ہو کہ نہ ہو
مجھ کو موجود تو ہر موڑ پہ وہ لگتا ہے
چاند تاروں کی نگارش سے عیاں ہو کہ نہ ہو
سوچ رہتی ہے عقیدت سے شرابور سدا
نرم لہجے میں دعا ورد زباں ہو کہ نہ ہو
میں تو مشکوک نہیں اس کی وفا سے جعفرؔ
ایک موہوم اشارے میں بھی ہاں ہو کہ نہ ہو