Ismail Raz

اسماعیل راز

اسماعیل راز کی غزل

    زندگی تو نے سلوک ایسے کیے ساتھ مرے

    زندگی تو نے سلوک ایسے کیے ساتھ مرے وہ تو اچھا ہے کہ باندھے ہوئے ہیں ہاتھ مرے روز میں لوٹتا ہوں خود میں ندامت کے ساتھ روز مجھ کو کہیں پھینک آتے ہیں جذبات مرے میں وراثت میں ملا تھا مرے نا قدروں کو یعنی ممکن نہیں مل پائیں نشانات مرے مجھ کو سنیے نظر انداز نہ کیجے صاحب میرے حالات سے ...

    مزید پڑھیے

    گرا پڑا کے نہ یوں تار تار کر مجھ کو

    گرا پڑا کے نہ یوں تار تار کر مجھ کو مرے حوالے ہی کر دے پکار کر مجھ کو مری تلاش میں کون آئے گا مرے اندر یہیں پہ پھینک دیا جائے مار کر مجھ کو میں جتنا قیمتی ہوں اتنا بد نصیب بھی ہوں وہ سو رہا ہے گلے سے اتار کر مجھ کو

    مزید پڑھیے

    تیری گلی کو چھوڑ کے پاگل نہیں گیا

    تیری گلی کو چھوڑ کے پاگل نہیں گیا رسی تو جل گئی ہے مگر بل نہیں گیا مجنوں کی طرح چھوڑا نہیں میں نے شہر کو یعنی میں ہجر کاٹنے جنگل نہیں گیا اس کو نظر اٹھا کے ذرا دیکھنے تو دے پھر کہنا میرا جادو اگر چل نہیں گیا ہائے وہ آنکھیں ٹاٹ کو تکتے ہی بجھ گئیں ہائے وہ دل کہ جانب مخمل نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زمانہ اس لیے لہجہ بدل رہا ہے دوست

    زمانہ اس لیے لہجہ بدل رہا ہے دوست ہمارا وقت ذرا پیچھے چل رہا دوست میں مسکرا رہا ہوں تیری رخصتی پہ اگر تو مجھ میں کون ہے جو ہاتھ مل رہا ہے دوست نہ مل سکی مرے حصے کی روشنی بھی مجھے مرا چراغ کہیں اور جل رہا ہے دوست پلید کر کے ہمارے وجود کی مٹی ہمارے نام کا سورج نکل رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    پڑی ہے رات کوئی غم شناس بھی نہیں ہے

    پڑی ہے رات کوئی غم شناس بھی نہیں ہے شراب خانے میں آدھا گلاس بھی نہیں ہے میں دل کو لے کے کہاں نکلوں اتنی رات گئے مکان اس کا کہیں آس پاس بھی نہیں ہے کسی بھی بات کو لے کر الجھتے رہتے ہیں یہ ملنا جلنا ہم ایسوں کو راس بھی نہیں ہے یہاں تو لڑکیاں اچھا سا گھر بھی چاہتی ہیں ہمارے پاس تو ...

    مزید پڑھیے

    ٹھوکروں میں اثر نہیں آیا

    ٹھوکروں میں اثر نہیں آیا دل ابھی راہ پر نہیں آیا خود میں دیکھا جو جھانک کر ترے بعد مجھ کو میں بھی نظر نہیں آیا مدتوں سے سکوت چیختا ہے لیکن اب تک اثر نہیں آیا چاند کس تمکنت سے نکلے گا تو اگر بام پر نہیں آیا کب سے گھر چھوڑ کر گیا ہوا ہوں کب سے میں لوٹ کر نہیں آیا

    مزید پڑھیے

    روبرو تیرے بہت دیر بٹھایا گیا میں

    روبرو تیرے بہت دیر بٹھایا گیا میں وجد میں آیا نہیں وجد میں لایا گیا میں سلسلہ ختم نہ ہوگا یہ دل آزاری کا اس سے پہلے بھی کئی بار منایا گیا میں یوں لگا سب نے گواہی دی کہ تو میرا ہے جب ترے نام سے بستی میں ستایا گیا میں جب جب اسرار مری ذات کے کھلنے سے رہے چھیڑ کر ذکر ترا وجد میں لایا ...

    مزید پڑھیے