روبرو تیرے بہت دیر بٹھایا گیا میں

روبرو تیرے بہت دیر بٹھایا گیا میں
وجد میں آیا نہیں وجد میں لایا گیا میں


سلسلہ ختم نہ ہوگا یہ دل آزاری کا
اس سے پہلے بھی کئی بار منایا گیا میں


یوں لگا سب نے گواہی دی کہ تو میرا ہے
جب ترے نام سے بستی میں ستایا گیا میں


جب جب اسرار مری ذات کے کھلنے سے رہے
چھیڑ کر ذکر ترا وجد میں لایا گیا میں


مجھ سے رستے میں ٹھہرنے کی اذیت پوچھو
ٹھوکریں مار کے رستے سے ہٹایا گیا میں