زمانہ اس لیے لہجہ بدل رہا ہے دوست

زمانہ اس لیے لہجہ بدل رہا ہے دوست
ہمارا وقت ذرا پیچھے چل رہا دوست


میں مسکرا رہا ہوں تیری رخصتی پہ اگر
تو مجھ میں کون ہے جو ہاتھ مل رہا ہے دوست


نہ مل سکی مرے حصے کی روشنی بھی مجھے
مرا چراغ کہیں اور جل رہا ہے دوست


پلید کر کے ہمارے وجود کی مٹی
ہمارے نام کا سورج نکل رہا ہے دوست


بتائیں کیا تجھے اب خستہ حالیٔ دل رازؔ
شکستہ خواب کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے دوست