Irfan Ahmad mir

عرفان احمد میر

عرفان احمد میر کی غزل

    پابند غم الفت ہی رہے گو درد دہنداں اور سہی

    پابند غم الفت ہی رہے گو درد دہنداں اور سہی اشکوں کی روانی تھم نہ سکی آنکھوں کے تھے ارماں اور سہی آداب چمن انجام تو دے گل سے نہ ہٹا تتلی کو صبا الفت کی حیا محفوظ رہے گو تجھ میں ہوں طوفاں اور سہی ہو سعئ کرم غیروں پہ اگر اپنوں پہ مذاق عام نہ ہو ہم راہ میں ہیں ٹھوکر ہی تو دے منزل کے ...

    مزید پڑھیے

    موت کیا درد کا بہانا ہے

    موت کیا درد کا بہانا ہے زندگی غم کا آنا جانا ہے آخری سانس روکے رکھتا ہوں تیرا وعدہ ابھی نبھانا ہے دل میں دن رات درد اٹھتا ہے غم کا اک مستقل ٹھکانا ہے تیرے بازار میں بکوں شاید دل کا ہر قرض جو چکانا ہے تجھ سے کر کے وفا کی امیدیں حسب معمول دل دکھانا ہے اب زمانے کی دی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    دل تو مرا برباد ہے صاحب کیا جینے کو بولے ہو

    دل تو مرا برباد ہے صاحب کیا جینے کو بولے ہو جان گنوائی ہنس کے ہم نے تم کاہے کو روئے ہو بندھن ہیں کچھ رسمیں ہیں کچھ روکے ہیں کچھ کھینچے ہیں جب رشتے باندھے ہیں ہم کو کیوں زنجیریں کھولے ہو ہم پہ جو گزری ہم جانے ہیں کوئی کیا سمجھائے گا ہم مٹ کے برباد ہوئے جب تم کیا دل کو ٹٹولے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کا امتحان ہے پیارے

    عشق کا امتحان ہے پیارے اور تو ناتوان ہے پیارے دل کے اس اضطراب سے ہر دم ہر حقیقت بیان ہے پیارے تیری سرکش نگار فطرت سے غم زدہ آسمان ہے پیارے فطرت دل ہے بس بہک جانا عاجزی بد گمان ہے پیارے رقص فریاد سے عاجز ہو کر بے بسی بے زبان ہے پیارے میں گرفت وصال کا مارا اور وہ لا مکان ہے ...

    مزید پڑھیے

    نہ میں حال دل سے غافل نہ ہوں اشک بار اب تک

    نہ میں حال دل سے غافل نہ ہوں اشک بار اب تک مری بے بسی پہ بھی ہے مجھے اختیار اب تک مرے باغ دل پہ آخر یہ بہار بھی ستم ہے جو گلاب ہم نے بوئے وہ ہیں خار دار اب تک کوئی آس مجھ کو روکے تری جستجو سے کافر میں اگرچہ ہو چکا تھا کبھی شرمسار اب تک یہ نصیب ہی نہیں تھا کہ میں اپنا حال جی لوں میں ...

    مزید پڑھیے

    خندگی خوش لب تبسم مثل ارماں ہو گئے

    خندگی خوش لب تبسم مثل ارماں ہو گئے عہد بے غم جوں ہی آیا ہم پریشاں ہو گئے آگے تھی ہم کو قرابت شب سے شب کو ہم سے تھی ان کو تھی خلوت سے رغبت ہم شبستاں ہو گئے ہائے یہ عجز و نیاز مے کشاں بھی کم نہیں آہ کیا بھر لی کہ ہم خاک‌‌ گلستاں ہو گئے کیا تری محفل کی ہے یہ ارتجالی اے خدا سانس کی ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کچھ فیض حاصل تھا زمانے سے خفا ہو کر

    نہیں کچھ فیض حاصل تھا زمانے سے خفا ہو کر میں دیوانہ بنا ہوں خود ہی اس بت پر فنا ہو کر میری دنیا میں اشک و خوں کا تانتا رہا ہر دم کبھی تیری وفاؤں میں کبھی تم سے جدا ہو کر تصور میں بھی پندار وفا کا لطف حاصل تھا تمہاری زلف قاتل پیشہ کے خم میں فنا ہو کر گنوائی اشکوں نے تاثیر جو خون ...

    مزید پڑھیے

    رسم الفت سے ہے مقصود وفا ہو کہ نہ ہو

    رسم الفت سے ہے مقصود وفا ہو کہ نہ ہو زخم دل اور ہو خون بستہ شفا ہو کہ نہ ہو ہم جفاکار وفا ہیں ہمیں مطلوب نہیں حاصل زلف سیاہ کار سزا ہو کہ نہ ہو رکھ لیا تھوڑا سا امکان تمنا نے بھرم دست شرمندہ رہے چاہے عطا ہو کہ نہ ہو ہو میرے قتل میں قاتل کی بھی مرضی شامل شور و غل خوب رہے آہ و بقا ہو ...

    مزید پڑھیے

    زندگی تیری طلب تھی تو زمانے دیکھے

    زندگی تیری طلب تھی تو زمانے دیکھے مرتے مرتے کئی جینے کے بہانے دیکھے حوصلہ تھا یا کرم ہو کہ وفاداری ہو ہم نے الفت میں کئی خواب سہانے دیکھے آنکھ سے جاری رہا اشکوں کا بہنا کیونکر غم نے ٹھکرایا تو پھر زخم پرانے دیکھے زخم پر زخم لگانے کی نہ عادت تھی اسے میرے قاتل نے نئے روز نشانے ...

    مزید پڑھیے