عشق کا امتحان ہے پیارے

عشق کا امتحان ہے پیارے
اور تو ناتوان ہے پیارے


دل کے اس اضطراب سے ہر دم
ہر حقیقت بیان ہے پیارے


تیری سرکش نگار فطرت سے
غم زدہ آسمان ہے پیارے


فطرت دل ہے بس بہک جانا
عاجزی بد گمان ہے پیارے


رقص فریاد سے عاجز ہو کر
بے بسی بے زبان ہے پیارے


میں گرفت وصال کا مارا
اور وہ لا مکان ہے پیارے


عشق خون جگر کا طالب ہے
تو کہ کمزور جان ہے پیارے


سر بہ سجدہ نگار ہستی سے
چشم نم ہرز جان ہے پیارے


خاک بوسیدہ دل کا ہو جانا
اس کے شایان شان ہے پیارے


خود سے بیزار کیوں ہوا بالغؔ
تجھ پہ رب مہربان ہے پیارے