موت کیا درد کا بہانا ہے

موت کیا درد کا بہانا ہے
زندگی غم کا آنا جانا ہے


آخری سانس روکے رکھتا ہوں
تیرا وعدہ ابھی نبھانا ہے


دل میں دن رات درد اٹھتا ہے
غم کا اک مستقل ٹھکانا ہے


تیرے بازار میں بکوں شاید
دل کا ہر قرض جو چکانا ہے


تجھ سے کر کے وفا کی امیدیں
حسب معمول دل دکھانا ہے


اب زمانے کی دی ہوئی دوری
ایک کمزور سا بہانا ہے


پھر میری آب آب آنکھوں کو
اپنی حالت پہ مسکرانا ہے


پھر سے یہ آبرو بڑھے نہ کہیں
پھر تیرے آگے سر جھکانا ہے


مسکرا کر تیرا بدل جانا
بھول جانا ہے یاد آنا ہے


چھینا بالغ سے موت کا دامن
زندگی اور کیا دکھانا ہے