دل تو مرا برباد ہے صاحب کیا جینے کو بولے ہو
دل تو مرا برباد ہے صاحب کیا جینے کو بولے ہو
جان گنوائی ہنس کے ہم نے تم کاہے کو روئے ہو
بندھن ہیں کچھ رسمیں ہیں کچھ روکے ہیں کچھ کھینچے ہیں
جب رشتے باندھے ہیں ہم کو کیوں زنجیریں کھولے ہو
ہم پہ جو گزری ہم جانے ہیں کوئی کیا سمجھائے گا
ہم مٹ کے برباد ہوئے جب تم کیا دل کو ٹٹولے ہو
سمجھیں کیا سمجھائیں کس کو کون ہے جو اب سمجھے گا
خون کے رشتوں نے ٹھکرایا اپنا کس کو بولے ہو
ہم پر یہ الزام لگایا کیوں یہ محبت کرنی تھی
دل کا لگانا جرم اگر ہے کیوں دل کو دل بولے ہو
جل جل کر جب راکھ ہوئے ہو تم جانا کیا ہستی ہے
مٹ مٹ کر آزاد ہوئے تب گرد بنے ہو ڈھولے ہو
مٹی کے سب مٹی ہونا کیا پچھتانا کیا رونا
بھید بھرم سب فاش ہوئے جب دین دھرم کیا تولے ہو
تم سے ہم نے چھین کے خود کو خود کو بھی ٹھکرایا ہے
خود میں جب میں خود ہی نہیں تو تم کیوں میرے ہولے ہو
دنیا کو اپنا کر ہم نے خود کو پھر بے مول کیا
کون گنائے تم کو بالغؔ کس کس کے تم ہولے ہو