اقبال بھارتی کی غزل

    اک دفینے میں عجب رنگ کا پتھر نکلا

    اک دفینے میں عجب رنگ کا پتھر نکلا غور سے کی جو نظر اس پہ تو گوہر نکلا جس نے اک مرکز تعلیم دیا ہے لوگو بس حقیقت میں وہ اک قوم کا رہبر نکلا جو کھنڈر کھودا گیا دیکھ کے حیرت یہ ہوئی شامل اس میں بھی مرے نام کا پتھر نکلا سنگ دل ہے جو زمانے کی نگاہوں میں بہت ہاں وہی میرے لئے میرا مقدر ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھا ہوں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے

    بیٹھا ہوں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے مدت ہوئی تھی گھر میں چراغاں کئے ہوئے پوچھو نہ مجھ سے شہر نگاراں سے کیا ملا پھرتا ہوں اپنا چاک گریباں کئے ہوئے بھولیں گے ہم نہ آپ کے جور و ستم کبھی بیٹھے ہیں اپنے سینے میں پنہاں کئے ہوئے اک بار اور حال مرا دیکھ جائیے مدت ہوئی ہے آپ کو احساں ...

    مزید پڑھیے

    حسن کتنا سرکش و مغرور ہے

    حسن کتنا سرکش و مغرور ہے عشق جس کے سامنے مجبور ہے اللہ اللہ عشق کی یہ مصلحت ہنس رہا ہوں دل مگر رنجور ہے میری نظروں میں ہی کچھ وسعت نہیں ورنہ ہر جلوہ مثال طور ہے شعر کہتا ہوں بہ فیض ابر میں شاعری گو مجھ سے کوسوں دور ہے کچھ توجہ کیجئے اقبالؔ پر درد فرقت میں بہت مجبور ہے

    مزید پڑھیے

    خزاں رسیدہ ہیں اب تک مری بہار کے دن

    خزاں رسیدہ ہیں اب تک مری بہار کے دن ترے بغیر میسر نہیں قرار کے دن جدھر بھی دیکھیے شعلے دکھائی دیتے ہیں چمن میں راس نہ آئے ہمیں بہار کے دن وہ بادہ خیز نگاہوں کی جنبشیں توبہ ملے تھے مجھ کو بھی یہ مستی و خمار کے دن خزاں بھی آئے گی اک دن یہ بات لازم ہے گزار لیتے مرے ساتھ تم بہار کے ...

    مزید پڑھیے

    شکوہ کیا جو میں نے تو گھبرا کے رہ گئے

    شکوہ کیا جو میں نے تو گھبرا کے رہ گئے کہنے سے پہلے بات وہ شرما کے رہ گئے آئی تھی اک زمانے میں ایسی بہار بھی گلشن میں پھول کھلتے ہی مرجھا کے رہ گئے تھے ہم کلام سب سے وہ کرتے تھے سب سے بات دیکھا مجھے جو بزم میں شرما کے رہ گئے شام فراق کا جو کبھی آ گیا خیال تارے سے مجھ کو دن میں نظر آ ...

    مزید پڑھیے

    خود شناسی ہی خود پرستی ہے

    خود شناسی ہی خود پرستی ہے اک معمہ بشر کی ہستی ہے جان دیتے ہیں لوگ باطل پر کیسا انداز حق پرستی ہے آج مر مر کے جی رہے ہیں لوگ کتنا دلچسپ خواب ہستی ہے مفلسی بڑھ گئی ہے اس درجہ موت کو زندگی ترستی ہے اب یہ حالت ہوئی ہے اے اقبالؔ زندگی موت کو ترستی ہے

    مزید پڑھیے

    اٹھاتے ہیں وہ جب رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

    اٹھاتے ہیں وہ جب رخ سے نقاب آہستہ آہستہ نکلتا ہے افق سے ماہتاب آہستہ آہستہ تغافل ان کی عادت ہے تساہل ان کی فطرت ہے لکھیں گے وہ مرے خط کا جواب آہستہ آہستہ امنڈ آئے مری آنکھوں میں آنسو بے قراری کے یہ کیسا رنگ لایا اضطراب آہستہ آہستہ ارے توبہ بڑی توبہ شکن آواز ہوتی ہے جو پیمانے ...

    مزید پڑھیے

    محبت درد و غم کی ترجماں معلوم ہوتی ہے

    محبت درد و غم کی ترجماں معلوم ہوتی ہے مری ہر آہ دل کی داستاں معلوم ہوتی ہے ہماری زندگی کی داستاں خوشبو کا عنواں تھی مگر اس دور میں آہ و فغاں معلوم ہوتی ہے جہاں دیکھو وہیں میں آشیاں اپنا بناتا ہوں جہاں گرتی ہوئی برق تپاں معلوم ہوتی ہے یہ کس منزل میں لے آیا تجسس دوست کا مجھ ...

    مزید پڑھیے

    لگی ہے چوٹ جو دل میں ابھر آئی تو کیا ہوگا

    لگی ہے چوٹ جو دل میں ابھر آئی تو کیا ہوگا محبت میں ہوئی جو ان کی رسوائی تو کیا ہوگا ہماری بے کسی پر آ رہی ہے کیوں ہنسی تم کو تمہاری اس ہنسی سے آنکھ بھر آئی تو کیا ہوگا کئے لیتا ہوں توبہ تیرے کہنے سے میں اے واعظ مگر چاروں طرف کالی گھٹا چھائی تو کیا ہوگا سمجھ کر سنگ دل جس کو نگاہیں ...

    مزید پڑھیے

    گردش وقت سے اقبالؔ پریشان نہ ہو

    گردش وقت سے اقبالؔ پریشان نہ ہو یہ تباہی بھی گزر جائے گی حیران نہ ہو صبح لائے گی کسی عیش و طرب کا پیغام شدت رنج سے اتنا تو پریشان نہ ہو الجھنیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں وقت گردش جان لینے کی یہی بات ہے انجان نہ ہو خود گلا گھونٹ کے مر جائیں یقیناً اک دن ہم کو جینے کا اگر دہر میں ارمان ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2