محبت درد و غم کی ترجماں معلوم ہوتی ہے
محبت درد و غم کی ترجماں معلوم ہوتی ہے
مری ہر آہ دل کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ہماری زندگی کی داستاں خوشبو کا عنواں تھی
مگر اس دور میں آہ و فغاں معلوم ہوتی ہے
جہاں دیکھو وہیں میں آشیاں اپنا بناتا ہوں
جہاں گرتی ہوئی برق تپاں معلوم ہوتی ہے
یہ کس منزل میں لے آیا تجسس دوست کا مجھ کو
حقیقت بھی جہاں اک داستاں معلوم ہوتی ہے
یہ عالم ہے نگاہ شوق کی اب بے ثباتی کا
بہار گلشن عالم خزاں معلوم ہوتی ہے
وہ چشم پر فسوں اقبالؔ جس نے غم دئے لاکھوں
نہ پوچھو آج کل کیوں مہرباں معلوم ہوتی ہے