اک دفینے میں عجب رنگ کا پتھر نکلا

اک دفینے میں عجب رنگ کا پتھر نکلا
غور سے کی جو نظر اس پہ تو گوہر نکلا


جس نے اک مرکز تعلیم دیا ہے لوگو
بس حقیقت میں وہ اک قوم کا رہبر نکلا


جو کھنڈر کھودا گیا دیکھ کے حیرت یہ ہوئی
شامل اس میں بھی مرے نام کا پتھر نکلا


سنگ دل ہے جو زمانے کی نگاہوں میں بہت
ہاں وہی میرے لئے میرا مقدر نکلا


شہر میں آیا پلٹ کر میں سفر سے جس دم
جس کو پہچان نہ پایا وہ مرا گھر نکلا


کوئی ترتیب نہ تھی گھر میں کتابوں میں مری
میرا کمرہ بھی تو اخبار کا دفتر نکلا


سب کو توفیق ادب ہوتی ہے اقبالؔ کہاں
جس کو حاصل ہوئی قسمت کا سکندر نکلا