خزاں رسیدہ ہیں اب تک مری بہار کے دن
خزاں رسیدہ ہیں اب تک مری بہار کے دن
ترے بغیر میسر نہیں قرار کے دن
جدھر بھی دیکھیے شعلے دکھائی دیتے ہیں
چمن میں راس نہ آئے ہمیں بہار کے دن
وہ بادہ خیز نگاہوں کی جنبشیں توبہ
ملے تھے مجھ کو بھی یہ مستی و خمار کے دن
خزاں بھی آئے گی اک دن یہ بات لازم ہے
گزار لیتے مرے ساتھ تم بہار کے دن
یہ اور بات ہے قسمت پلٹ گئی میری
مجھے ہیں یاد ابھی تک تمہارے پیار کے دن
ہمیں تو یاد ہی ان کی رلاتی رہتی ہے
تمہارے ساتھ گزارے تھے جو قرار کے دن
تڑپتا چھوڑ کے اقبالؔ کو نہ جاؤ تم
کٹیں گے کیسے بھلا اس سے انتظار کے دن