اٹھاتے ہیں وہ جب رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
اٹھاتے ہیں وہ جب رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا ہے افق سے ماہتاب آہستہ آہستہ
تغافل ان کی عادت ہے تساہل ان کی فطرت ہے
لکھیں گے وہ مرے خط کا جواب آہستہ آہستہ
امنڈ آئے مری آنکھوں میں آنسو بے قراری کے
یہ کیسا رنگ لایا اضطراب آہستہ آہستہ
ارے توبہ بڑی توبہ شکن آواز ہوتی ہے
جو پیمانے میں ڈھلتی ہے شراب آہستہ آہستہ
نظر اقبالؔ تیری سوز پنہاں پر نہیں شاید
ہوا جاتا ہے دل جل کر کباب آہستہ آہستہ