رشک اپنوں کو یہی ہے ہم نے جو چاہا ملا

رشک اپنوں کو یہی ہے ہم نے جو چاہا ملا
بس ہمیں واقف ہیں کیا مانگا خدا سے کیا ملا


جس زمیں پہ میرا گھر تھا کیا محل اٹھا وہاں
میں جو لوٹا ہوں تو خاک در نہ ہم سایہ ملا


دیکھیے کب تک ملے انسان کو راہ نجات
لاکھ برسوں میں تو ویراں چاند کا رستہ ملا


ہر سفر اک آرزو ہے ورنہ سیر دشت میں
کس کو شہزادی ملی ہے کس کو شہزادہ ملا


سب پرانے داغ دل ہی میں رہے آخر نعیمؔ
ہر نئے دکھ میں نہ پچھلے دکھ سے چھٹکارا ملا