ناامیدی نے یوں ستایا تھا
ناامیدی نے یوں ستایا تھا
میں نے خود ہی دیا بجھایا تھا
ایک بستی ہوئی وہیں آباد
تم نے خیمہ جہاں لگایا تھا
کچھ ہنر کی کمی تھی قاتل میں
کچھ بزرگوں کا مجھ پہ سایا تھا
مجھ کو داد وفا ملی اس سے
جس نے اپنا بھی گھر لٹایا تھا
اب ہوں قیدی اسی پری کا نعیمؔ
جس نے ہر قید سے چھڑایا تھا