اسی خوش نوا میں ہیں سب ہنر مجھے پہلے تھا نہ قیاس بھی

اسی خوش نوا میں ہیں سب ہنر مجھے پہلے تھا نہ قیاس بھی
اسی خوش نوا پہ سجا ہے کیا مری شاعری کا لباس بھی


وہ غزل کا روپ لیے ہوئے مجھے ہر مقام پہ لے گیا
کبھی دشت یار کے درمیاں کبھی شہر فکر کے پاس بھی


جسے اتنا اوج نظر ملا اسے کیوں نہ درد زمیں ملے
کسی فلسفے کا نزول ہے ترے لب پہ کلمۂ یاس بھی


کوئی جیسے نوک سناں لیے شب و روز سر پہ کھڑا رہا
ہے اذیتوں کے شمار میں یہ اذیتوں کا ہراس بھی


رخ داغ دل کے سوا حسنؔ میں نوائے بیدل و شاد ہوں
انہی عاشقوں کا ہے رنگ بھی انہی کاملوں کا ہے باس بھی