حنیف راہی کی غزل

    وہ جذبوں میں گہرا سات سمندر سے

    وہ جذبوں میں گہرا سات سمندر سے میں نے اس کو دیکھ لیا ہے اندر سے آج ہمیں جو زخم لگے ہیں پتھر سے ممکن ہے کل بھر جائیں گے خنجر سے کب دوڑے گا رگ رگ میں بدلے کا لہو کب نکلے گی راکھ ہمارے اندر سے اور بھی ہے رنگین مناظر سڑکوں پر باہر آ کے دیکھو خواب کی چادر سے کچھ نہ کچھ تو بات ہے تجھ ...

    مزید پڑھیے

    نہ مسجدیں نہ شوالے تلاش کرتے ہیں

    نہ مسجدیں نہ شوالے تلاش کرتے ہیں یہ بھوکے پیٹ نوالے تلاش کرتے ہیں ہماری سادہ دلی دیکھو اس زمانے میں دکھوں کو بانٹنے والے تلاش کرتے ہیں مجھے تو اس پہ تعجب ہے عقل کے اندھے دئے بجھا کے اجالے تلاش کرتے ہیں کسی کے کام نہ آئے کبھی زمانے میں اور اپنے چاہنے والے تلاش کرتے ہیں رہ وفا ...

    مزید پڑھیے

    جینے کا بن گیا ہے امکان زندگی میں

    جینے کا بن گیا ہے امکان زندگی میں تم آ گئے ہماری ویران زندگی میں ہر راستہ ہے اب تو آسان زندگی میں شامل ہوا ہے جب سے قرآن زندگی میں مرنے کے بعد اس کی مہلت نہیں ملے گی کر آخرت کا پیارے سامان زندگی میں پھر مل سکی نہ اس کو جائے پناہ کوئی جس نے بھی کھو دئے ہیں اوسان زندگی میں یہ کہہ ...

    مزید پڑھیے

    یہی تضاد تو حیران کرنے والا ہے

    یہی تضاد تو حیران کرنے والا ہے کہاں چراغ رکھا ہے کہاں اجالا ہے میں زخم زخم ہوں اس واسطے نشے میں ہوں مجھے بتاؤ حرم ہے کہ یہ شوالہ ہے رئیس شہر کا یہ عالی شان بنگلہ بھی کسی غریب سے چھینا ہوا نوالہ ہے امیر لوگوں سے محفوظ رکھ مرے مالک پھر اک غریب کی بیٹی نے خود نکالا ہے انہیں کے سر ...

    مزید پڑھیے

    جاگے کہ کوئی سوئے ہم فرض نبھا آئے

    جاگے کہ کوئی سوئے ہم فرض نبھا آئے ہم رات کی گلیوں میں آواز لگا آئے معلوم نہیں ہم کو پھولوں میں چھپا کیا ہے باتوں سے تو ظالم کی خوشبوئے وفا آئے زخمو پہ کوئی مرہم رکھے یا نمک چھڑکے ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا آئے اٹھتی چلی جاتی ہے دیوار گناہوں کی کہہ دو یہ سمندر سے ساحل پہ چلا ...

    مزید پڑھیے

    کھلی رکھوں گا میں کمرے کی کھڑکیاں کب تک

    کھلی رکھوں گا میں کمرے کی کھڑکیاں کب تک ادھر سے گزرے گا خوشبو کا کارواں کب تک مسافرو پہ یہ راستہ ہو مہرباں کب تک زمین تھک گئی پہنچے گا کارواں کب تک لباس و جسم پہ گرد سفر تو ٹھہرے گی رکھوں سنبھال کے مٹھی میں کہکشاں کب تک زمین روز یہ مجھ سے سوال کرتی ہے تمہارے سر پہ رہے گا یہ ...

    مزید پڑھیے

    بے وفا ایسے تو ہرگز نہ تھے پہلے ہم لوگ

    بے وفا ایسے تو ہرگز نہ تھے پہلے ہم لوگ ایک ہی شہر میں رہ کر نہیں ملتے ہم لوگ جس طرح جینا تھا ایسے ہی جو جیتے ہم لوگ جس طرح مرتے ہیں ایسے نہیں مرتے ہم لوگ خدمت خلق میں جس شخص کی گزری ہے حیات ایسے انساں کی عیادت کو نہ پہنچے ہم لوگ امن کا قافلہ کرتا رہا منت پھر بھی چند لمحوں کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    نظر کو قرب شناسائی بانٹنے والے

    نظر کو قرب شناسائی بانٹنے والے کبھی تو ہاتھ آ پرچھائی بانٹنے والے اکیلا پن در و دیوار سے ٹپکتا ہے کہاں گئے مری تنہائی بانٹنے والے یہ منہ سے سوکھے نوالے بھی چھین لیتے ہیں بہت غریب ہیں مہنگائی بانٹنے والے ہمارے شہر کو تیری بڑی ضرورت ہے ادھر بھی آ کبھی اچھائی بانٹنے ...

    مزید پڑھیے

    تری تلاش تری جستجو اترتی ہے

    تری تلاش تری جستجو اترتی ہے مرے شعور کے کاغذ پہ تو اترتی ہے سنوارنے کے بجائے سنورنے لگتا ہے جب آئنے کے مقابل میں تو اترتی ہے تو میرے نام سے منسوب ہے زمانے میں تو کچھ کرے تو مری آبرو اترتی ہے میں دل کے پاک سے خانے میں اس کو رکھتا ہوں تمہاری یاد بہت با وضو اترتی ہے میں ایسا رند ...

    مزید پڑھیے