کھلی رکھوں گا میں کمرے کی کھڑکیاں کب تک
کھلی رکھوں گا میں کمرے کی کھڑکیاں کب تک
ادھر سے گزرے گا خوشبو کا کارواں کب تک
مسافرو پہ یہ راستہ ہو مہرباں کب تک
زمین تھک گئی پہنچے گا کارواں کب تک
لباس و جسم پہ گرد سفر تو ٹھہرے گی
رکھوں سنبھال کے مٹھی میں کہکشاں کب تک
زمین روز یہ مجھ سے سوال کرتی ہے
تمہارے سر پہ رہے گا یہ آسماں کب تک
سکھا دو اپنے چراغوں کو آندھیوں کی زباں
رہو گے ایسے ہواؤں سے بد گماں کب تک
میں بند کمرے میں تنہائی سے جلا ہوں میاں
سڑک پہ آئے گا اس جسم کا دھواں کب تک
وہ نیند لگنے سے پہلے مجھے جگاتا ہے
کروں میں اپنی تھکن کو بھی رائیگاں کب تک
یہ بات سچ ہے فرشتہ صفت نہیں ہوں میں
بڑھا چڑھا کے لکھیں میری داستاں کب تک