وہ جذبوں میں گہرا سات سمندر سے
وہ جذبوں میں گہرا سات سمندر سے
میں نے اس کو دیکھ لیا ہے اندر سے
آج ہمیں جو زخم لگے ہیں پتھر سے
ممکن ہے کل بھر جائیں گے خنجر سے
کب دوڑے گا رگ رگ میں بدلے کا لہو
کب نکلے گی راکھ ہمارے اندر سے
اور بھی ہے رنگین مناظر سڑکوں پر
باہر آ کے دیکھو خواب کی چادر سے
کچھ نہ کچھ تو بات ہے تجھ میں اے جانا
چاند زمیں پہ دیکھ رہا ہے عنبر سے