نظر کو قرب شناسائی بانٹنے والے

نظر کو قرب شناسائی بانٹنے والے
کبھی تو ہاتھ آ پرچھائی بانٹنے والے


اکیلا پن در و دیوار سے ٹپکتا ہے
کہاں گئے مری تنہائی بانٹنے والے


یہ منہ سے سوکھے نوالے بھی چھین لیتے ہیں
بہت غریب ہیں مہنگائی بانٹنے والے


ہمارے شہر کو تیری بڑی ضرورت ہے
ادھر بھی آ کبھی اچھائی بانٹنے والے


کبھی یہ سوچ کے تیرے بھی اپنے بچے ہیں
ہماری نسل کو ننگائی بانٹنے والے


زمانہ کیا ہوا اب جو نظر نہیں آتے
وفا کی پیار کی بینائی بانٹنے والے