جاگے کہ کوئی سوئے ہم فرض نبھا آئے
جاگے کہ کوئی سوئے ہم فرض نبھا آئے
ہم رات کی گلیوں میں آواز لگا آئے
معلوم نہیں ہم کو پھولوں میں چھپا کیا ہے
باتوں سے تو ظالم کی خوشبوئے وفا آئے
زخمو پہ کوئی مرہم رکھے یا نمک چھڑکے
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا آئے
اٹھتی چلی جاتی ہے دیوار گناہوں کی
کہہ دو یہ سمندر سے ساحل پہ چلا آئے
انداز نظر اس کا پاگل نہ کہیں کر دے
جب اس کی طرف دیکھوں آنکھوں میں نشہ آئے
یادوں کے دریچوں سے بچپن کی گلی جھونکے
راہیؔ مرے آنگن میں ممتا کی ہوا آئے