یہی تضاد تو حیران کرنے والا ہے
یہی تضاد تو حیران کرنے والا ہے
کہاں چراغ رکھا ہے کہاں اجالا ہے
میں زخم زخم ہوں اس واسطے نشے میں ہوں
مجھے بتاؤ حرم ہے کہ یہ شوالہ ہے
رئیس شہر کا یہ عالی شان بنگلہ بھی
کسی غریب سے چھینا ہوا نوالہ ہے
امیر لوگوں سے محفوظ رکھ مرے مالک
پھر اک غریب کی بیٹی نے خود نکالا ہے
انہیں کے سر پہ نہ گر جاؤں آسماں بن کر
ستم گروں نے مرا نام تو اچھالا ہے
ہیں انتظار میں تارے بھی چاند بھی وہ بھی
سنا ہے رات میں سورج نکالنے والا ہے
ہوا کی راہ میں جلتا چراغ ہے راہیؔ
وہ کیا بجھے گا جسے روشنی نے پالا ہے