گل فراز کی غزل

    کبھی خاموش رہ کر بھی پکارا کافی ہوتا ہے

    کبھی خاموش رہ کر بھی پکارا کافی ہوتا ہے سمجھنے والوں کو تو بس اشارہ کافی ہوتا ہے اضافہ اس میں کر لیتا ہوں میں اپنی طرف سے بھی یہاں بس دیکھ لینا ہی تمہارا کافی ہوتا ہے کبھی تو فائدہ بھی دینے لگ جائے گا وہ مجھ کو کہ پہلے پہلے ویسے بھی خسارہ کافی ہوتا ہے یہ ایسی مار ہے جس کا نشاں ...

    مزید پڑھیے

    ہمدردی کی ذرا بھی ضرورت نہیں مجھے

    ہمدردی کی ذرا بھی ضرورت نہیں مجھے احساں کوئی اٹھانے کی عادت نہیں مجھے ہاں لالچی ہوں اور زیادہ کی ہے ہوس اتنے قلیل پر تو قناعت نہیں مجھے درکار تھی جو چیز وہ نا پید ہو چکی وافر وہی ہے جس کی ضرورت نہیں مجھے سب کچھ بگاڑ کے ہی نہ رکھ دوں کسے خبر اس کام میں ذرا بھی مہارت نہیں مجھے وہ ...

    مزید پڑھیے

    تفصیل بتانے سے کنارہ ہی کیا ہے

    تفصیل بتانے سے کنارہ ہی کیا ہے کیا چاہتا ہوں اس کو اشارہ ہی کیا ہے مشکل تھا اگر کوئی تو وہ بیچ میں چھوڑا آسان ملا مجھ کو تو سارا ہی کیا ہے اس کا متبادل بھی اسی طرح کا ڈھونڈا یعنی کہ خسارے پہ خسارہ ہی کیا ہے جب ایک دفعہ سے نہ ہوئی اتنی تشفی پھر سارے کے سارے کو دوبارہ ہی کیا ...

    مزید پڑھیے

    تیرے کہنے پہ ہی رکوں گا میں

    تیرے کہنے پہ ہی رکوں گا میں ورنہ پھر اپنی راہ لوں گا میں دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک ہے سب باقی چکھ کر ہی کچھ کہوں گا میں جو کسی نے نہیں کیا اب تک کام ایسا کوئی کروں گا میں چھوڑ کر ایسا جاؤں گا کہ تمہیں خواب میں بھی نہیں ملوں گا میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلنا ویسے کا ویسا ہی دکھوں گا ...

    مزید پڑھیے

    بظاہر دیکھتے ہیں تو زیادہ کام کرتا ہوں

    بظاہر دیکھتے ہیں تو زیادہ کام کرتا ہوں مگر حق بات کچھ یوں ہے کہ تھوڑا کام کرتا ہوں اب آگے خود سمجھ جاؤ میں کیسا کام کرتا ہوں جو کوئی بھی نہیں کرتا ہے ویسا کام کرتا ہوں محبت میں مجھے باتیں بنانا تو نہیں آتا کبھی موقع ملے مجھ کو تو سیدھا کام کرتا ہوں کرانا چاہتا ہوں اس طرح اپنا ...

    مزید پڑھیے

    سب سے الگ ہوں لیکن اکیلا نہیں بنا

    سب سے الگ ہوں لیکن اکیلا نہیں بنا اوروں سا ہو کے بھی کسی جیسا نہیں بنا دنیا بھی وہ نہیں بنی جو ہونی چاہیے سو کیا ہوا اگر وہ ہمارا نہیں بنا سب فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہوتے ہیں میں جان بوجھ کر بہت اچھا نہیں بنا وہ بن گیا جو بننا نہیں چاہتا تھا میں خواہش تھی جیسا بننے کی ویسا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہاں مصروف ہو کر بھی رہا بے کار اتنا ہی

    یہاں مصروف ہو کر بھی رہا بے کار اتنا ہی نہ کوئی عشق تھا ایسا مگر میں خار اتنا ہی بچھڑنے پر تلا جب وہ سنی کوئی نہیں اس نے کہ آخر سارے میں تھا میں بھی حصے دار اتنا ہی بظاہر تو یہی لگتا ہے سب آسان ہی ہوگا حقیقت میں مگر یہ کام ہے دشوار اتنا ہی اب اس نے کوئی لکھ کر تو نہیں دینی ہمیں یہ ...

    مزید پڑھیے