کبھی خاموش رہ کر بھی پکارا کافی ہوتا ہے

کبھی خاموش رہ کر بھی پکارا کافی ہوتا ہے
سمجھنے والوں کو تو بس اشارہ کافی ہوتا ہے


اضافہ اس میں کر لیتا ہوں میں اپنی طرف سے بھی
یہاں بس دیکھ لینا ہی تمہارا کافی ہوتا ہے


کبھی تو فائدہ بھی دینے لگ جائے گا وہ مجھ کو
کہ پہلے پہلے ویسے بھی خسارہ کافی ہوتا ہے


یہ ایسی مار ہے جس کا نشاں تک بھی نہیں پڑتا
پر اس میں آدمی اندر سے مارا کافی ہوتا ہے


وہ پہلے کی طرح وارے نیارے تو نہیں لیکن
میں کوشش کرتا رہتا ہوں گزارہ کافی ہوتا ہے


تو ظاہر ہے کہ یہ سب چھوڑ کر کچھ اور کر لیں ہم
اگر نقصان اس میں بھی ہمارا کافی ہوتا ہے


سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے باتوں ہی باتوں میں
کسی کا ساتھ ہو تو پھر سہارا کافی ہوتا ہے


تمہارے وعدے ہوتے ہیں سیاست دانوں والے گلؔ
حقیقت جن میں تھوڑی اور لارا کافی ہوتا ہے