یہاں مصروف ہو کر بھی رہا بے کار اتنا ہی
یہاں مصروف ہو کر بھی رہا بے کار اتنا ہی
نہ کوئی عشق تھا ایسا مگر میں خار اتنا ہی
بچھڑنے پر تلا جب وہ سنی کوئی نہیں اس نے
کہ آخر سارے میں تھا میں بھی حصے دار اتنا ہی
بظاہر تو یہی لگتا ہے سب آسان ہی ہوگا
حقیقت میں مگر یہ کام ہے دشوار اتنا ہی
اب اس نے کوئی لکھ کر تو نہیں دینی ہمیں یہ بات
کہ سب کے سامنے ہو سکتا ہے اقرار اتنا ہی
بہت واضح بتا دینے سے بنتی ہی نہیں وہ بات
ضروری ہے کسی بھی شعر میں اظہار اتنا ہی
کوئی پلڑا تو بھاری ہونا ہے آخر ترازو کا
ابھی اقرار ہے اس کا یہاں انکار اتنا ہی
ضرورت سے زیادہ تو میں رکھتا ہی نہیں ہرگز
مرا حصہ ہے پورا اور مجھے درکار اتنا ہی
اضافہ کرنا ہے مقدار میں آہستہ آہستہ
کہ ایسا کام ہو سکتا ہے پہلی بار اتنا ہی