ہمدردی کی ذرا بھی ضرورت نہیں مجھے
ہمدردی کی ذرا بھی ضرورت نہیں مجھے
احساں کوئی اٹھانے کی عادت نہیں مجھے
ہاں لالچی ہوں اور زیادہ کی ہے ہوس
اتنے قلیل پر تو قناعت نہیں مجھے
درکار تھی جو چیز وہ نا پید ہو چکی
وافر وہی ہے جس کی ضرورت نہیں مجھے
سب کچھ بگاڑ کے ہی نہ رکھ دوں کسے خبر
اس کام میں ذرا بھی مہارت نہیں مجھے
وہ بات بس عمومی رویوں کے بارے تھی
تم سے وگرنہ کوئی شکایت نہیں مجھے
تم ہوتے ہو تو لگتا ہے سب کچھ بھرا بھرا
جیسے کسی بھی چیز کی قلت نہیں مجھے
اک رائے مع دلیل یہاں پیش کرنی ہے
مقصود ورنہ اپنی وکالت نہیں مجھے
آرام ہی میں اتنا میں مشغول ہوں کہ اب
ایسے فضول کاموں کی فرصت نہیں مجھے
اندر تو خیر دور کہ فی الحال ادھر کہیں
باہر بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں مجھے
ہر کام کرتا ہوں بڑے آرام سے میں گلؔ
اور اس معاملے میں تو عجلت نہیں مجھے