Ghalib Ahmad

غالب احمد

  • 1928

غالب احمد کی نظم

    نصیحت

    دل تیرا اک آئینہ ہے آئینے سے ڈرنا اپنے جیسی صورت دیکھ کے یوں ہی نہ اس پہ مرنا صورت تو سپنا ہے مورکھ ایک جھلک دکھلائے دکھ سکھ اک لمحے کی چھایا آئے بھی اور جائے تو کیوں اک لمحے کی خاطر اپنا مان گنوائے دل تیرا اک آئینہ ہے آئینے سے ڈرنا اپنے آپ نہ مرنا

    مزید پڑھیے

    چلو ہوا کے ساتھ چلیں

    چلو ہوا کے ساتھ چلیں اور دیکھیں رخ ان لوگوں کا جو ہم سے روٹھ کے بیٹھے ہیں آؤ ان کی بات سنیں اور سن لیں شاید اپنی بات رکھ کر ان کے ہاتھ پہ ہاتھ کبھی تو دل کی بات سنیں اور رہیں ہم ان کے پاس شاید وہ بھی ہوں اداس چلو ہوا کے ساتھ چلیں

    مزید پڑھیے

    خوشبو کی خوشیاں

    درختوں سے پتے تو ہر سال گرتے ہیں مٹی میں ملنے کی خواہش لیے مگر ان کو گن گن کے رکھتا ہے کون سفر کی تھکن سے سراسیمہ پتا جو گرتا ہے لمحے کی دیوار کرکے عبور بہت دور سے آ کے لیتا ہے مٹی کی خوشبو کی خوشیاں مگر زرد رنگوں کے زیور سے آراستہ یہ خزاں کی دلہن جس کی قسمت کے تارے شب و روز گرتے ...

    مزید پڑھیے

    چشم تمنا

    چشم تمنا جسے نیند آئی تھی صدیوں کی بیماریوں کی تھکن سے جاگ اٹھی ہے شاید بدن میں نیا دن شگوفے کی مانند ابھرا شفق زار بن کر دل کی آغوش میں آ بسا ہے نظارے میں مسحور رہنے کی خواہش جنم لے رہی ہے بسا کر اسے اپنی نظروں میں شاداب آنکھوں میں رہنے کو جی چاہتا ہے وہی رنگ و بو کی حرارت کی ہلکی ...

    مزید پڑھیے

    یہ پھولوں کی دنیا

    ذرا اپنی آنکھیں تو دینا کہ دیکھوں تمہاری نظر سے جہان تمنا جہاں لوگ کہتے ہیں نرگس نے اک پھول پھر سے جنا ہے ہزاروں برس کی سزا جھیل کر گماں اور افشاں کے رنگوں میں پھر سے بہاروں کی خوشبو سفر کر رہی ہے کہ لمحوں کی لہروں پہ ہر سو نئی آرزو پر فشاں ہے تمنا کی تنہائیاں منتظر ہیں کہ شاید وہی ...

    مزید پڑھیے

    کرم یوگی

    کرم یوگی ہے پیکر جسم میں رہتا ہے مرے ساتھ اس کی آواز مرے دل سے نکل کر پھونکتی ہے مری روح میں نغموں کا خمار پھول کھلتے ہیں ستاروں کے مرے آنگن میں میری سکھیاں میری ہمجولیاں آتی ہیں مجھے ملنے تو وہ مل بیٹھتا ہے اس کی آسودگیٔ دل در و دیوار سے باہر کسی مہکی ہوئی خوشبو کی طرح پھیلتی ...

    مزید پڑھیے

    صدا بہ صحرا

    یہ دور دور مرادوں کے ریتیلے ٹیلے سرک سرک کے جو دامن بدلتے رہتے ہیں یہ مردہ اونٹ جو صحرا کے زرد رنگوں میں کسی نے دشت طلب میں سجا کے رکھے ہیں کہ جو بھی بھیس بدل کر ادھر روانہ ہو پلٹ ہی جائے وہ لے کر پھٹی پھٹی آنکھیں یہ کس کی وادی ہے یہ اونٹ کس کے ہیں یہ کون زرد نگارش کا اتنا شائق ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    بات کا دوسرا رخ

    روشنی روشنی روشنی ہر طرف روشنی سے کہو چھوڑ جائے مجھے وقت کا کارواں جا رہا ہے مگر ابھی ساتھ لے کر نہ جائے مجھے مری آرزو ہے کہ تو بھی کبھی دل کی جانب وہ رستہ سجھائے مجھے مری روشنی کو مرے نور کو میری آنکھوں سے لے کر دکھائے مجھے ظلمت و موت کی وادیوں میں کبھی اندھیروں کی خاطر لٹائے ...

    مزید پڑھیے

    وجود اور ابن آدم

    ۱ ہم کسی اور ستارے سے یہاں آئے تھے یاد رکھنا تھی یہی بات مگر بھول گئے ہم نے جب چاند پہ رکھا تھا قدم یاد آیا تھا ہمیں اس کا بدن ہم مگر اپنوں کی باتوں میں مگن وادیٔ یاد کی گہرائی میں اترے ہی نہیں کاش اس لمحے کی آواز کو ہم سن لیتے پھر ہمیں وقت کے چنگل سے رہائی ہوتی غار کے پار سفیدی نہ ...

    مزید پڑھیے

    دوست رخصت ہو گئے

    دوست رخصت ہو گئے ان سے ملاقاتیں گئیں باتیں گئیں شہر تھا آباد جن کے دم قدم سے وہ ہماری چاندنی راتیں گئیں مرنے والے مر گئے زندہ مگر ہم بھی نہیں وہ تو غسل آخری لے کر ہوئے پھر تازگی سے آشنا نتھرے ستھرے اوڑھ کر اپنی سفیدی کے کفن کافور کی خوشبو کو نتھنوں میں سمائے سو گئے آرام سے ٹھنڈے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2