خوشبو کی خوشیاں

درختوں سے پتے تو ہر سال گرتے ہیں
مٹی میں ملنے کی خواہش لیے
مگر ان کو گن گن کے رکھتا ہے کون
سفر کی تھکن سے سراسیمہ پتا
جو گرتا ہے لمحے کی دیوار کرکے عبور
بہت دور سے آ کے لیتا ہے
مٹی کی خوشبو کی خوشیاں
مگر زرد رنگوں کے زیور سے آراستہ
یہ خزاں کی دلہن
جس کی قسمت کے تارے
شب و روز گرتے ہیں
دھرتی کی آغوش پر
ہیں یہ کس کے اشارے
انہی زرد رنگوں کی خوشبو میں
شاید نئی خواہشوں کے افق ہیں
نئے چاند تارے