Ghalib Ahmad

غالب احمد

  • 1928

غالب احمد کی غزل

    دیکھا نہیں وہ آدمی تنہا کہوں جسے

    دیکھا نہیں وہ آدمی تنہا کہوں جسے وہ آج تک ملا نہیں اپنا کہوں جسے صدیوں سے انتظار ہے اس ایک شخص کا آئے ہو کتنی دیر سے اتنا کہوں جسے نظریں ترس کے رہ گئیں تا عکس آبشار دیکھا نہیں ہے پانی کا قطرہ کہوں جسے کون و مکاں میں موجزن ہے تیری آگہی اک لمحہ بھی ملا نہیں تیرا کہوں جسے دریا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    منظر ہوش سے آگے بھی نظر جانے دے

    منظر ہوش سے آگے بھی نظر جانے دے جا رہا ہے یہ مسافر تو ادھر جانے دے تیری آواز کی پرواز میں ہے میرا وجود اپنی گفتار کے پردوں میں بکھر جانے دے نہ کوئی چشم تمنا نہ کوئی دست دعا زندگی تو مجھے بے لوث گزر جانے دے تیرے قابل بھی نہیں تیرے مقابل بھی نہیں ہم سفر ساتھ مجھے اپنے مگر جانے ...

    مزید پڑھیے

    بارہا ہو کے گئے ابر بہاراں خالی

    بارہا ہو کے گئے ابر بہاراں خالی دشت میں پھول کھلے اور گلستاں خالی اب تو خلوت کدۂ عالم امکاں سے نکل اب یہاں کوئی نہیں عشق کا عنواں خالی پھر کسی جنت گم گشتہ کو دیکھا اس نے جسم پھر چھوڑ چلا جسم کا زنداں خالی وادیٔ زیست میں دل ڈھونڈھتا ہے نور کا رنگ چار سو گھورتی ہے چشم پریشاں ...

    مزید پڑھیے

    پتے نہیں کہیں ہری شاخ شجر نہیں

    پتے نہیں کہیں ہری شاخ شجر نہیں اس شہر میں بہار کی کوئی خبر نہیں رنگ خزاں میں لاکھ ملاؤں دلوں کے رنگ موج شراب و شعر میں کوئی اثر نہیں ڈوبے پڑے ہیں قلزم خواب و خیال میں موج رواں کہاں ہے کسی کو خبر نہیں دریا میں موج بن کے کہاں تک رہے کوئی موج رواں بہ صورت دیوار و در نہیں اب منزل ...

    مزید پڑھیے

    زنجیر میں ہیں دیر و حرم کون و مکاں بھی

    زنجیر میں ہیں دیر و حرم کون و مکاں بھی ہے عشق ہمیں ان سے نہیں جن کا گماں بھی جو جسم کے ذروں میں خدا ڈھونڈ رہی ہے یوسف کی زلیخا میں ہے وہ روح تپاں بھی اس مہر خموشی میں نہاں روح تکلم اس سوئے ہوئے شہر کی ہے اپنی زباں بھی ہر لہر کے سینے سے لپٹتا ہے مرا دل منجدھار کے اس پار ہو ساحل کا ...

    مزید پڑھیے

    رات پھر جانب سحر آئی

    رات پھر جانب سحر آئی کتنی دشوار رہ گزر آئی چاند تاروں کے پھول مرجھائے جب بھی شبنم کی آنکھ بھر آئی حسرتوں کا سفید فام کفن کون پہنے ہوئے کدھر آئی کس تمنا کی چشم آوارہ ٹھوکریں کھا کے در بدر آئی آج رنگ شفق عجیب سا تھا دل کی تصویر سی اتر آئی اک زمانہ ہوا خزاں گزرے دل اجڑنے کی اب ...

    مزید پڑھیے

    موسم بدل سکے نہ ترے انتظار کے

    موسم بدل سکے نہ ترے انتظار کے اب کے بھی دن گزر گئے یوں ہی بہار کے غم خیز و غم شناس مری پر شکوہ رات کب آؤگی پہاڑ سا یہ دن گزار کے آیا حضور یار سے شاعر کو یہ پیام آئے شراب‌ و شعر کا چوغا اتار کے دل میں ترے اتر نہ سکی میری کوئی بات لکھے ہیں لاکھ شعر غزل کے سنوار کے ایک مشت خاک بن کے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کرے حال دل بیاں کوئی

    کیا کرے حال دل بیاں کوئی نہ رہا زیب داستاں کوئی پھر ہے قلب و نظر میں یکسوئی کاش آ جائے ناگہاں کوئی آنکھ شبنم کی دیکھتی ہے کسے چاندنی میں ہوا جواں کوئی شہر سے دور دن کا پھول کھلا دشت میں بھی ہے گلستاں کوئی دل بھی ہم راز آرزو نکلا اب نہیں اپنا رازداں کوئی چھوڑ دکھ سکھ کی منزلوں ...

    مزید پڑھیے