Fayyaz Uddin Saieb

فیاض الدین صائب

فیاض الدین صائب کی نظم

    مجھے جزدان سے باہر نکالو

    مجھے جزدان میں تم نے لپیٹا پھر اس کے بعد طاقوں پر سجایا مری آیات کے تعویذ کر کے تمہی نے مجھ کو جسموں پر سجایا کبھی سچ قتل کر دینے کی خاطر سروں پر اپنے جھوٹوں نے اٹھایا مجھے سمجھے بنا پڑھتے رہے تم مری توہین یوں کرتے رہے تم مرے الفاظ کو تصویر کر کے سجایا گھر کی دیواروں کو تم نے مبلغ ...

    مزید پڑھیے

    ڈور

    مجھے احساس ہے اب بھی اس اک پل کا جو میری زندگی کی انگلیوں سے اس طرح نکلا کہ جیسے ڈور ہاتھوں سے نکل کر انگلیوں کو کاٹ جاتی ہے پتنگیں رقص کرتی ہیں ہوا کے دوش پر اور کوئی اپنی زخم خوردہ انگلیوں کو اپنے ہونٹوں میں دبائے زندگی کا ذائقہ محسوس کرتا ہے پتنگوں کی بجائے آسماں کی وسعتوں میں ...

    مزید پڑھیے

    ماں

    جس کے چہرے پہ نظر آئے خدا کا پرتو جس کی آنکھوں میں چمکتی ہو فقط پیار کی لو جس کی پلکوں پہ نظر آئے وفا کی شبنم جس کے ہونے سے نہ ہوتا ہو کسی طرح کا غم جس کو تخلیق کے جوہر پہ ہو قدرت حاصل جس کی دھڑکن ہو ہر اک لحظہ لہو میں شامل جس کی آغوش میں احساس تحفظ کا رہے جس کی مسکان سے مرجھا ہوا دل ...

    مزید پڑھیے

    قالین

    یہ مانا بہت خوب صورت ہے لیکن یہ قالین پھر بھی نہ میں لے سکوں گا بہت نرم ہے اور جاذب نظر بھی کہ نازک سے پھولوں نے اس کو بنا ہو ذرا اس کے ان سرخ رنگوں کو دیکھو کہ گالوں کی سرخی ہو جیسے نچوڑی یہ گولائی یہ نقش اور زاویے سب بہت نرم ہاتھوں سے جیسے بنے ہوں یہ اس کے کناروں کی رنگین جھالر کہ ...

    مزید پڑھیے

    کتابیں تم سے اچھی ہیں

    کتابیں تم سے اچھی ہیں سرہانے کے بہت نزدیک جو اس طرح میری منتظر رہتی ہیں جیسے کوئی لڑکی خواب کی دہلیز سے انجان شہزادے کی راہیں دیکھتی ہو کتابیں تم سے اچھی ہیں کہ جب میں شام کو دن بھر مشقت کر کے ان کے پاس آتا ہوں تو یہ اپنی قبائیں کھول کر الفاظ کی خوشبو بساتی میری بانہوں میں سماتی ...

    مزید پڑھیے

    وائٹ ہاؤس

    درمیان واشنگٹن اک سفید بلڈنگ ہے جس میں ایک جادوگر اوڑھ کر عجب ٹوپی سرخ اور کچھ نیلی شعبدے دکھاتا ہے اس کے اک اشارے پر سب غریب ملکوں کے سربراہ آتے ہیں سر جھکائے جو اپنے ملک کے غریبوں کی عزت و انا اس کی سرخ نیلی ٹوپی میں کپکپاتے ہاتھوں سے ایسے ڈال جاتے ہیں جیسے اک مداری کے ڈگڈگی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے لوگوں کے نام

    غریب لوگو، ستم گزیدہ عجیب لوگو تمہاری آنکھیں جو منتظر ہیں کہ کوئی عیسیٰ نفس تمہارے بریدہ خوابوں کی لاش اٹھا کر پڑھے گا پھر سے وہ اسم اعظم کہ جس سے یہ خواب جی اٹھیں گے غریب لوگو، ستم گزیدہ عجیب لوگو یہ جان لو تم، کہ وہ پیمبر دلوں میں موجود ہے تمہارے تم اپنے بازو کماں کرو گے تم اپنے ...

    مزید پڑھیے