Fayyaz Uddin Saieb

فیاض الدین صائب

فیاض الدین صائب کی غزل

    خدایا زخموں میں شدت درد اور بھی کچھ شدید کر دے

    خدایا زخموں میں شدت درد اور بھی کچھ شدید کر دے پھر اس کے بعد ان تمام زخموں سے اک سخن تو کشید کر دے مچلنا اے دل برا نہیں ہے تو ضد بھی کرنا درست کب ہے کسی کی آنکھیں نہیں کھلونا جو کوئی تجھ کو خرید کر دے سبھی نے دیکھا ہے قتل ہوتے مگر کوئی بولتا نہیں ہے مجھی کو یا رب زبان دے کر یہ ...

    مزید پڑھیے

    چل رہا ہے جو یہاں تو بڑے پندار کے ساتھ

    چل رہا ہے جو یہاں تو بڑے پندار کے ساتھ سر نہ آ جائے زمیں پر کہیں دستار کے ساتھ جنگ کا فیصلہ دشمن کو مرے کرنا ہے پھول رکھتا ہوں میں اک ہاتھ میں تلوار کے ساتھ گھر کی تقسیم سے حل کوئی نہیں نکلے گا مسئلے اور کھڑے ہوتے ہیں دیوار کے ساتھ اس لئے خوف نہیں مد مقابل کا مجھے جاں ہتھیلی پہ ...

    مزید پڑھیے

    الفاظ گفتگو کے لیے اب نہیں رہے

    الفاظ گفتگو کے لیے اب نہیں رہے محسوس ہو رہا ہے مرے لب نہیں رہے مانا کہ فاصلے ہیں بہت پھر بھی یہ بتا ہم تیرے ساتھ ساتھ بھلا کب نہیں رہے کچھ دیر گفتگو میں تو شائستہ وہ رہا پھر یوں ہوا کہ ہم بھی مہذب نہیں رہے تیشے سے کوئی دودھ کی نہریں نکال دے ہاتھوں میں اب وہ عشق کے کرتب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے ظلم کی میعاد گھٹ بھی سکتی ہے

    تمہارے ظلم کی میعاد گھٹ بھی سکتی ہے یہ میرے پاؤں کی زنجیر کٹ بھی سکتی ہے جو سچ کہا ہے تو اس کی سزا بھی جانتا ہوں مجھے خبر ہے زباں میری کٹ بھی سکتی ہے دلوں کے بیچ جو دوری ہے اس کو ختم کریں یہ سرحدوں کی رکاوٹ تو ہٹ بھی سکتی ہے مجھے شکست نظر آ رہی ہے خود اپنی مگر یقین ہے بازی پلٹ ...

    مزید پڑھیے

    منتظر اپنے لئے بھی جو کھلے در ہوتے

    منتظر اپنے لئے بھی جو کھلے در ہوتے ہم بھی اوروں کی طرح رات گئے گھر ہوتے سر جھکانے کا مرض پھیل گیا ہر جانب ورنہ اس شہر میں کچھ لوگ قد آور ہوتے اس سے پہلے نہیں گزرا ہوں یہاں سے شاید ایسا ہوتا تو پھر اس راہ میں پتھر ہوتے راستے کاٹ دئے ہم نے خود اپنے ہاتھوں ورنہ کیا جانیے ہم آج کہاں ...

    مزید پڑھیے

    سروں پہ دھوپ کا اک سائبان رہنے دے

    سروں پہ دھوپ کا اک سائبان رہنے دے زمیں رہے نہ رہے آسمان رہنے دے میں آگہی کی فصیلوں کو چوم آیا ہوں مرے خدا تو مجھے بے زبان رہنے دے امیر شہر کا ایوان کانپ اٹھے گا غریب شہر ہوں میرا بیان رہنے دے مرے خدا ترے دوزخ کو خلد سمجھوں گا میں اک بشر ہوں مرا امتحان رہنے دے مہک تو گل کی ہر اک ...

    مزید پڑھیے

    آگ برستی لگتی ہے دیواروں سے

    آگ برستی لگتی ہے دیواروں سے صائبؔ کیا لکھ آئے ہو انگاروں سے قتل کے بعد مجھے سائے میں ڈال آتے اتنی تو امید تھی مجھ کو یاروں سے میرا دکھ سکھ بانٹنے تو آ جاتے ہیں ہم سایے اچھے ہیں رشتے داروں سے دیکھ لو اپنا سر رکھا ہے نیزوں پر فاصلہ ہم نے رکھا ہے دستاروں سے آخر کب تک قتل کی خبریں ...

    مزید پڑھیے